Friday, March 4, 2016

پاکستان: ’فیس بک‘ پر نفرت انگیز مواد شائع کرنے پر 13 سال قید کی سزا


رضوان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اُن کے موکل نے صرف فیس بک پر لگے ایک مواد کو 'لائیک' کیا تھا اور خود اسے شائع نہیں کیا، رضوان حیدر اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
فائل فوٹو
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ایک شخص کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر مذہبی منافرت پھیلانے والا مواد شائع کرنے سے متعلق تین جرائم میں مجموعی طور پر 13 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
صوبہ پنجاب کے ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر علیم چٹھہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے رضوان حیدر کو فیس بک پر انسداد دہشت گردی کے قانون کی دو دفعات اور توہین مذہب سے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 (A) کے تحت تین جرائم میں پانچ، پانچ اور تین سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
دفعہ 298 (A) کے تحت پیغمر اسلام، ان کے اہل خانہ، خلفہ راشدین یا صحابہ کے نام کی اہانت کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی دو دفعات فرقہ وارانہ نفرت یا تشدد پیدا کرنے والے مواد کو رکھنے اور اس کی تشہیر اور پھیلاؤ سے متعلق ہیں جن پر پانچ، پانچ سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
علیم چٹھہ نے بتایا کہ یہ مقدمہ فیصل آباد میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے پولیس اسٹیشن میں اس سال جنوری میں درج ہوا تھا۔
تاہم رضوان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اُن کے موکل نے صرف فیس بک پر لگے ایک مواد کو 'لائیک' کیا تھا اور خود اسے شائع نہیں کیا۔
لیکن سرکاری وکیل علیم چٹھہ کا کہنا تھا رضوان نے خلفائے راشدین کے بارے میں مواد اپ لوڈ، لائیک اور شیئر کیا تھا اور عدالت نے اس سلسلے میں دستاویزی ثبوت دیکھتے ہوئے سزا سنائی۔
اگرچہ مجرم کو سنائی جانے والی سزاؤں کا کل عرصہ 13 سال بنتا ہے مگر قانون کے تحت تمام سزاؤں پر ایک ہی وقت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے یعنی ملزم زیادہ سے زیادہ پانچ سال جیل میں گزارے گا۔
رضوان حیدر کو ہائی کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔
علیم چٹھہ نے کہا کہ فیصل آباد کی عدالت ایسے ہی تین، چار مقدمات میں مجرموں کو سزائیں سنا چکی ہے۔ ان کے بقو ل اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں دستاویزی ثبوت موجود ہوتا ہے جس کی تردید نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے خلاف بھرپور کارروائی کرتے ہوئے حالیہ مہینوں میں کئی پیش اماموں کو گرفتار کر کے سزا سنائی ہے۔

جولائی کنوینشن، امیدوار کا چناؤ دقت طلب نہیں ہوگا: پارٹی سربراہ

ریپبلیکن پارٹی کے سربراہ کے مطابق، ’’ابھی کافی دِن پڑے ہیں‘‘۔ ادھر، معروف ’کوک پولیٹیکل رپورٹ‘ کے مطابق، جمعرات کے مباحثے سے قبل، ٹرمپ ہی ریپبلیکن پارٹی کے وہ واحد امیدوار تھے جنھیں ضروری 1237 ڈیلیگٹ کی حمایت حاصل ہے

ریپبلیکن پارٹی کے جھگڑتے ہوئے صدارتی امیدواروں نے جمعے کے روز نامزدگی کے اگلے معرکوں کی تیاری کر لی ہے، جو اس اختتام ہفتہ متعدد ریاستوں میں منعقد ہوں  گے۔ قدامت پسندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، پارٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایسا کوئی امکان نہیں کہ جولائی کےکنوینشن میں چناؤ کے معاملے پر کوئی مشکل پیش آئے۔
واشنگٹن کے نزدیک میری لینڈ کےمضافات میں ’کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس (سی پی اے سی)‘ میں شریک سرگرم کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے، ریپبلیکن نیشنل کمیٹی کے چیرمین، رائن پریبس نےکہا کہ ’’کنوینشن کے دوران انتخاب میں کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں آئے گا‘‘۔
پریبس نے کنزرویٹو پارٹی کارکنوں کو یقین دلایا کہ جولائی کے کنویشن میں جو بھی صدارتی امیدوار نامزد ہوتا ہے، پارٹی مکمل طور پر اُس کی حمایت کرے گی۔بقول اُن کے، ’’ریپبلیکن پارٹی نامزد امیدوار کی 100 فی صد حمایت کرے گی۔‘‘
اُنھوں نے واضح کیا کہ پارٹی کے حلقے کسی ایک امیدوار کے حق میں یا خلاف نہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ’’ہم فریق نہیں بنا کرتے، قطع نظر اس بات کے کہ کوئی کیا سوچتا ہے یا پڑھتا ہے‘‘۔
ریبپلیکن پارٹی کے کچھ لوگ اس سوچ کے حامی ہیں کہ نیویارک کے کاروباری شخص، ڈونالڈ ٹرمپ، جو پرائمری دوڑ میں سرکردہ امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں اُنھیں روکا جائے، جس دوڑ میں ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز اور فلوریڈا کے مارکو روبیو کے علاوہ اوہائیو کے گورنر جان کسیچ شامل ہیں۔ جمعرات کی شام گئے ہونے والے مباحثے میں امیدواروں نے تلخی کا مظاہرہ کیا۔

Monday, February 29, 2016

بھارت: کہیں’حتمی جنگ‘ تو کہیں’ہندو مسلم اتحاد‘ کے عزائم

Image captionہندو مسلم اتحاد کانفرنس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی تھی جبکہ ہندوؤں کی تعداد کم تھی
بھارتی دارالحکومت دہلی کے جنوب میں ’محبت کا مندر‘ کہے جانے والے تاج محل کی نگری آگرہ میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ ’حتمی جنگ‘ کی بات کی جا رہی تھی وہیں دہلی سے 100 کلو میٹر شمال میں ’ہندو مسلم اتحاد‘ کے نعرے سنے جا رہے تھے۔
گذشتہ روز اتوار کو دہلی کے قریب شاملی ضلعے کے بدھانہ قصبے میں مسلمانوں کے اہم رہنماؤں اور ہندوؤں کے سیکولر رہنماؤں نے ’تعمیر، تعلیم اور اتحاد‘ کانفرنس کے تحت قومی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے عزائم کا اظہار کیا۔
ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ملک کے دستور اور آئین کی حفاظت کے لیے جمیعت علمائے ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ’مسلمان برادران وطن کے درمیان جائیں اور بقائے باہمی کی تقاریب منعقد کریں، ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کو مٹانے کے لیے پیار و محبت کا پیغام بہت ضروری ہے کیونکہ 70 سال قبل ملک میں فرقہ پرستی کے عفریت نے جنم لیا تو ملک تقسیم ہو گیا۔۔۔آج پھر سے وہ جن بوتل سے باہر نکالا جا رہا ہے اور اسے بروقت بند نہیں کیا گیا تو نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘
Image captionاس موقعے پر ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ علاقے کے ہندو اور مسلمانوں نے کس طرح شانے سے شانہ ملا کر جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا
انھوں نے کہا کہ ابھی بھی بھارت میں سیکولرز زندہ ہے کیونکہ گذشتہ سال دہلی کے قریب دادری میں گوشت کے شبہے میں مارے جانے شخص اخلاق کی ہلاکت کے جواب میں بہت سے ہندو دانشوروں نے مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اعزازات حکومت کو واپس لوٹا دیے تھے۔
اس موقعہ پر کانفرنس کے کنوینر مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی نے کہا کہ ’اس کانفرنس کا محرک ملک کے روز افزوں خراب ہوتے حالات ہیں۔ اس سے قبل ہندوستان کی آزادی میں علما نے بڑے کردار ادا کیے تھے اور ایک بار پھر علما سے بڑا کردار ادا کرنے کا مطالبہ ہے تاکہ نہ صرف اقلیتوں کا تحفظ ممکن ہو بلکہ ملک کی سلامتی بھی قائم رہے۔‘
ندوۃ العلما لکھنؤ کے استاد مولانا سلمان حسنی ندوی نے کہا کہ ’ملک میں ایک ہزار سال تک مسلم حمکراں رہے لیکن ان کے دور میں ایک بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا جبکہ انگریزوں کے تسلط کے بعد سے اب تک ملک میں تقریباً 25 ہزار فسادات ہو چکے ہیں۔‘
دانشور رام پنیانی نے کہا کہ مذہب کے نام پر ہندوستانی سماج کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، کبھی ’لو جہاد‘ تو کبھی ’بیف‘ اور کبھی دوسرے بہانے فضا کو مقدر کیا جار رہا ہے۔ ماؤ نواز علاقوں میں کام کرنے والے ہمانشو کمار نے کہا کہ ’جو فرقہ وارانہ فسادات میں تلوار بانٹتے رہے وہی آج اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔‘
Image copyrightPTI
Image captionسنگھ پریوار ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے والے بیان دیتا رہا
دوسری جانب اخبار انڈین ایکپریس کے مطابق آگرہ میں فروغ انسانی وسائل کے نائب وزیر اور آگرہ کے رکن پارلیمان رام شنکر کٹھیار اور فتح پور سیکری کے بی جے پی ایم ایل اے کی موجودگی میں سنگھ پریوار کے مقریرین نے مسلمانوں کو ’راکشش‘ اور ’راون کے وارث‘ کہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف’حتمی جنگ‘ کے لیے تیار رہنے کی بات کہی۔
اخبار کے مطابق بی جے پی ایم ایل جگن پرساد گرگ نے کہا ’آپ کو گولی چلانی ہوگی، رائفل اٹھانا ہوگا، چاقو چلانا ہوگا۔ 2017 میں انتخابات ہیں، آج ہی سے اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کردیں۔‘
سنگھ پریوار کے رہنما یہ باتیں وی ایچ پی کے ایک کارکن کی ہلاکت کے سلسلے میں منعقد کی جانے والی ایک مجلس میں کہہ رہے تھے۔ ارون ماتھر نام کے شخص کو گذشتہ ہفتے مبینہ طور پر چند مسلم نوجوان نے ہلاک کر دیا تھا۔
وی ایچ پی کے جنرل سیکریٹری سوریندر جین نے انتظامیہ کو متبنہ کرتے ہوئے کہا: ’تم نے مظفرنگر کے نتائج دیکھ لیے ہیں۔ آگرہ کو مظفر نگر نہ بناؤ۔‘ خیال رہے کہ دو سال قبل مظفرنگر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے جس میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو گئے تھے۔

ایران میں تبدیلی کی حیران کن ہوا

Image copyrightEPA
Image captionایران میں انتخابی نتائج بڑی حد تک حیران کن رہے ہیں
ایران میں پارلیمان اور شوری نگہبان کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے اور اس کے نتائج کس طرح بھی حیران کر دینے والی چیز سے کم نہیں ہیں۔
دارالحکومت ایران میں صورتحال بالکل واضح ہے۔ حکومت نواز جماعتوں نے تہران کی 30 نشستیں حاصل کر کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں مکمل فتح حاصل کر لی ہے جو سخت گیر حلقوں کے لیے ایک شرمناک شکست ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دوسرے یعنی شوری نگہبان کے انتخاب میں ایران کے اصلاح پسند صدر حسن روحانی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے اہم سخت گیر رہنماؤں کو شکست دے دی ہے۔ تکنیکی اعتبار سے یہ علما کونسل سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے انتقال کے بعد، اُن کے جانشین کا انتخاب کرنے کا اہم کام سر انجام دے گی۔
فاتح اُمیدواروں کی فہرست میں شامل سیاستدانوں کا اتحاد بے جوڑ تھا، اس میں معتدل اُمیدوار اور کچھ سابقہ سخت گیر رہنما بھی شامل تھے۔
اگرچہ یہ گروہ اب بھی سماجی طور پر قدامت پسند جانا جاتا ہے جبکہ حالیہ چند برسوں کے دوران اِنھوں نے صدر روحانی کی متعدل پالیسیوں کی کھل کر حمایت کی ہے، خاص طور پر بیرونی دنیا کے ساتھ اُن کے تعلقات اور عالمی طاقتوں کے ساتھ کامیاب جوہری معاہدے کے حوالے سے۔
انتخابی امیدواروں کی جانچ کرنے والی نگران کونسل کی جانب سے تقریباً تمام معروف اصلاح پسند امیدواروں اور کئی اعتدال پسند اُمیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اصلاح پسند رہنماؤں نے نئے اتحاد کی بنیاد رکھی اور اپنے حمایتی عوام سے حکمت عملی کے بنیاد پر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔
بڑے پیمانے پر نا اہلیوں اور عوام کی عدم دلچسپی کے پیش نظر بہت سے مبصرین نے انتخابی مہم کے یک طرفہ رہنے کی پیشن گوئی کی تھی۔ مبصرین کے خیال میں اِن حالات کی وجہ سے سخت گیر با آسانی انتخابات میں فتح حاصل کرلیں گے۔
Image copyrightAP
Image captionنتائج کے بعد صدر حسن روحانی کو اصلاحات کے اپنے ایجنڈے پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا
لیکن انتخابی مہم کے آخری حصے میں صورت حال یکدم تبدیل ہوگئی اور ایرانی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ لیکن یہ کس طرح ہوا۔

انگریزوں کی فہرست

گلیوں میں سُست روی سے چلنے والی انتخابی مہم انٹرنیٹ پر اس کے برعکس رہی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹیں اس سیاسی بھونچال کے لیے بہترین جگہ ثابت ہوئیں ۔
ٹیلی گرام (ایران کی معروف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ) کے دو کروڑ صارفین، ٹوئٹر کے لاکھوں اور فیس بک کے صارفین نے اپنے ہتھیار اکھٹے کرکے فوری ہی دھاوا نہیں بول دیا بلکہ صورتحال کی مناسبت سے آہستہ آہستہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، جس کا انتخاب کی شام تک کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
آن لائن مہم کو مہمیز دینے والوں میں سے ایک خود سپریم لیڈر بھی تھے، جنھوں نے انتخابات سے چند روز قبل ووٹروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’دا انگلش لسٹ‘ یعنی ’انگریزوں کی فہرست‘ سے باخبر رہیں۔
اُنھوں نے برطانیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ مخصوص اُمیدواروں کی پشت پناہی کرکے انتخابات میں داخل اندازی کر رہا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکمت عملی کی بنیاد پر ووٹوں کو اکھٹا کرکے کچھ انتہائی سخت گیر رہنماؤں کو ماہرین کی کونسل اور پارلیمان میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اِس بیان کی وجہ سے صدر سمیت کئی حکومتی سیاستدان میں غم و غصہ پھیل گیا تھا، صدر نے ’انگریزوں کی فہرست‘ کو ایرانی عوام کے فہم کی توہین قرار دیا تھا۔
غیر متوقع طور پر گذشتہ پانچ سالوں سے نظر بند حزب اختلاف کے رہنماؤں میرحسین موسوی اور مہدی کروبی کی جانب سے اہم اور نئی حکمت عملی سامنے آئی۔
اُنھوں نے اپنے حمایتیوں سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے حکام سے اپنے گھر پر بیلٹ باکس لانے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ یہ بالکل غیر متوقع اور کافی جرات مندانہ قدم تھا۔ اِنھیں سنہ 2009 کے متنازع صدراتی انتخابات میں حکام پر دھاندلی کا الزام لگانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اِن انتخابات کے نتیجے میں ملک بھر میں پُر تشدد مظاہرے ہوئے تھے اور دس افراد مارے گئے۔

Image copyrightepa
Image captionان انتخابات کے دور رس نتائج نکلیں گے

آئندہ کیا؟

اگرچہ اصلاح پسندوں اور حکومتی نواز جماعتوں نے دونوں انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی ہے، لیکن سخت گیر اور قدامت پسند عناصر کے حوالے سے کچھ لکھنا قبل از وقت ہوگا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کے دیگر قصبوں اور یہاں تک کے چند بڑے شہروں میں بھی اِن کی کارکردگی اتنی بُری نہیں تھی۔ لیکن یہ ضرور یاد رہنا چاہیے کہ نگران کونسل کی جانب سے منظوری کے بعد ہی انتخابی نتائج کو درست سمجھا جائے گا۔
اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ نگران کونسل، عدلیہ، ریاستی ٹی وی اور فوج سمیت غیر منتخب اداروں پر اب بھی اِن کا قبضہ ہے۔ فوج کسی بھی منتخب ادارے کو جواب دہ نہیں ہے اور یہ سیاست میں دخل اندازی اور قدامت پسندوں کی حمایت کرنے سے بالکل نہیں ڈرتے ہیں۔
اگر 76 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نئی پارلیمان کے آٹھ سالہ دور اقتدار کےدوران انتقال کرجاتے ہیں تو یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ماہرین کی کونسل میں چند قدامت پسندوں کے نہ جانے سے نئے رہنما کے انتخاب پر کوئی اثر پڑے گا۔
لیکن اِن انتخابات کے نتائج سے ایران کی سیاست میں تبدیلی آئی ہے۔ صدر روحانی کی اصلاح پسند حکومت، غیر منتخب اداروں کے اثر و رسوخ اور سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرنے کے حوالے سے اپنے منصوبوں پر عمل کرنے میں زیادہ پُر اعتماد ہوگی۔
اب جو کچھ ہوگا، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ یہ دونوں گروہ انتخابات میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے استعمال میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای اور جن کی وہ حمایت کرتے ہیں، اُن کے رد عمل کے آئندہ ہونے والی چیزوں پر اہم اثرات ہوں گے۔

سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی

پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے سابق پولیس اہلکار ممتاز قادری کی سزائے موت پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اتوار اور پیر کی درمیانی رات پھانسی دی گئی۔
پھانسی کے وقت اڈیالہ جیل جانے والے راستے کو سیل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اہلِ خانہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔
سنّی تحریک کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ممتاز قادری کی نمازِ جنازہ منگل کی دوپہر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ادا کی جائے گی۔
Image copyrightAFP
Image captionسابق گورنر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی سے اظہار ہمدردی کیا تھا
سزائے موت پر عمل درآمد کے خلاف احتجاج کے پیشِ نظر راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں میٹرو بس سروس بند کرنے کے علاوہ ریڈ زون کو سیل کر دیا گیا ہے اور پولیس اور رینجرز کے جوانوں کی بڑی تعداد وہاں تعینات ہے۔
پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں سے احتجاج کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
مظاہرین نے راولپنڈی کو دارالحکومت اسلام آباد سے ملانے والی بڑی شاہرہ اسلام آباد ایکسپریس وے اور فیض آباد پل کے علاوہ بارہ کہو اور روات سے شہر میں آنے والے راستے بند کر دیے ہیں اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا ہے۔
فیض آباد کے قریب مظاہرین نے میڈیا کے نمائندوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
اسلام آباد میں وکلا کی تنظیم اسلام آباد بار کونسل نے بھی پھانسی کے خلاف ہڑتال کرنے اور احتجاجاً عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔
Image copyrightReuters
لاہور میں بھی احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس معطل کر دی گئی ہے جبکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
لاہور کے داخلی و خارجی راستوں پر مذہبی تنظیموں کی جانب سے دھرنے دیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ایسے متعدد افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے جو مبینہ طور پر ملک میں ’ممتاز قادری بچاؤ مہم‘ چلا رہے تھے۔
سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دیے جانے کا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اس بارے میں پنجاب کے محکمۂ جیل خانہ جات کے چند افسران ہی باخبر تھے۔
Image copyrightReuters
Image captionاحتجاج کے پیشِ نظر راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے
پھانسی دینے والے شخص کو خصوصی گاڑی کے ذریعے اتوار کی شب لاہور سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچایا گیا جبکہ عموماً پھانسی دینے والے جلاد کو دو دن پہلے آگاہ کیا جاتا ہے کہ اسے کس جیل میں قیدیوں کو تختۂ دار پر لٹکانا ہے۔
پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے سابق اہلکار مجرم ممتاز قادری گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی سکیورٹی پر تعینات تھے اور انھوں نے چار جنوری 2011 کو اسلام آباد کے علاقے ایف سکس میں سلمان تاثیر کو سرکاری اسلحے سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ممتاز قادری کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سنہ 2011 میں دو مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی۔
سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2015 میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تھیں تاہم سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔
اسی فیصلے کو دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا اور پھر صدر مملکت نے بھی ممتاز قادری کی رحم کی اپیل بھی مسترد کرد ی تھی۔

Saturday, February 27, 2016

کنڑ میں خود کش حملہ، افغان کمانڈر سمیت 13 افراد ہلاک


کابل: افغانستان کے صوبے کنڑ میں ایک خودکش بمبار نے افغان فوجیوں کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا دیا، کمانڈر سمیت کم ازکم 13 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے، مرنے والے زیادہ افراد عام شہری اور بچے ہیں، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ہفتے کو افغان صوبے کنڑ کے علاقے اسد آباد میں گورنر ہائوس کے قریب خود کش بمبار نے خود کو افغان ملیشیاء کے درمیان جاکر دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہو گئے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے میں افغان ملیشیا کمانڈر بھی ہلاک ہوا ہے، واقعہ کے فوری بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیا اور لاشوں اور زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا، اسد آباد کے ہسپتال میں 40 زخمیوں کو لایا گیا جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے، ہلاکتیں بڑھنے کاخدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی گورنر وحید اللہ کلیم زئی نے بتایا کہ بمبار ایک موٹر سائیکل پر سوار تھا اور اسد آباد میں ایک سرکاری دفتر کے سامنے جا کر اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ انھوں نے بتایا کہ مرنے والے زیادہ افراد عام شہری اور بچے ہیں جو یا تو ادھر سے گزر رہے تھے یا پھر پارک میں کھیل رہے تھے۔ حملے کی فوری وجہ نہیں معلوم ہو سکی ہے اور نہ ہی کسی نے ذمے داری لی ہے۔ تاہم اس حملے میں ایک قبائلی سردار اور ملیشیا کمانڈر حاجی خان جان کی موت ہو گئی ہے۔ خیال رہے کہ وہ گزشتہ سال سے طالبان کے خلاف کئی کارروائیوں میں شامل رہے تھے۔ دریں اثنا کنڑ میں دولت اسلامیہ کی سرگرمیاں بھی نظر آئی ہیں تاہم ہمارے نامہ نگار کے مطابق انھیں کئی جانب سے مزاحمت اور مخالفت کا سامنا ہے

ٹینو فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے نئے صدر منتخب

زیورخ: سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے جیانی انفینٹینو فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں، 45 سالہ جیانی انفینٹینو یورپی فٹبال ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ انفنٹینو کو فیفا کانگریس کے دوسرے راؤنڈ میں 115 ووٹ ملے جبکہ ایشین فٹ بال کنفیڈیریشن کے صدر کو 88 ووٹس ملے۔ انہیں ایک ایسے موقع پر صدر منتخب کیا گیا ہے جب کھیل کی ساکھ اپنے نچلے ترین مقام پر ہے۔ اس سے قبل بلاٹر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر چھ سال کی پابندی عائد کی گئی جبکہ سوئس اور امریکی حکام کی جانب سے فیفا میں کرپشن کی تحقیقات جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق فیفا کے صدر کا انتخاب سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورخ میں منعقدہ انتخابات میں ہوا جن میں 207 ممالک سے فیفا کے مندوبین نے حصہ لیا،انتخاب کے پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ تاہم دوسرے مرحلے میں جیانی نے 115 ووٹ حاصل کیے جو ان کے قریب ترین حریف شیخ سلمان بن ابراہیم الخلیفہ سے 27 ووٹ زیادہ تھے۔ دوسرے مرحلے میں اردن کے پرنس علی الحسین کے حصے میں صرف چار ووٹ آئے جبکہ فرانس سے تعلق رکھنے والے جیروم شیمپئین کو کوئی ووٹ نہ ملا۔ تنظیم کے صدر کا عہدہ 79 سالہ سیپ بلیٹر کے مستعفی ہونے کے بعد خالی ہوا تھا۔ سیپ بلیٹر جو 1998 سے فیفا کی صدارت پر فائز تھے گذشتہ برس اپنے عہدے سے علیحدہ ہوئے تھے۔ فیفا کی ضابط اخلاق کمیٹی نے سیپ بلیٹر اور ان کے قریبی مشیل پلاٹینی پر قواعد کی خلاف ورزی کے جرم میں چھ سال تک فٹبال سے متعلق کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جیانی انفینٹیانو صرف اس وقت صدارتی دوڑ میں شامل ہوئے تھے جب یہ واضح ہوگیا تھا کہ مشیل پلا ٹینی کو فیفا کا صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملے گی۔