Friday, December 11, 2015

بی 52 بمبار طیارہ: امریکی فضائیہ کا دادا

بیسویں صدی کے سب سے زیادہ خطرناک بمبار طیارے بی 52 کی افادیت 60 سال بعد بھی اتنی ہی ہے جتنی 1962 میں تھی، اور یہ جہاز 2044 تک امریکی فضائیہ کا حصہ رہے گا۔
آخر یہ جہاز نے سٹیلتھ طیاروں اور ڈرونز کے زمانے میں اپنی افادیت کیسے قائم رکھی ہے؟
یہ بمبار طیارہ 1960 میں تیار کیا گیا تھا۔ دو سال بعد 1962 میں ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا آخری بی 52 تیار کیا گیا اور اس نے آٹھ انجن سٹارٹ کیے اور امریکہ اور روس کے درمیان کیوبن میزائل بحران میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اڑان بھری۔
آدھی صدی کے بعد اس جہاز نے ویت نام جنگ، دو عراق اور ایک افغانستان کی جنگوں میں حصہ لیا ہے۔ لیکن اب امریکی فضائیہ کے اس پرانے طیارے پر بڑھاپے کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔
لیکن اب بھی یہ بمبار طیارے امریکہ کی فضا میں اڑان بھرتے ہیں، اور جب بھی امریکہ نے کسی کو پیغام پہنچانا ہو تو بی 52 بمبار طیارے بھجوائے جاتے ہیں۔
اسی سال نومبر میں جب چین کے ساتھ بحیرہ جنوبی چین میں کشیدگی بڑھی تو دو بی 52 بمبار اس مقام کے قریب سے گزرے۔
کیپٹن ایرن میک کیب کا کہنا ہے کہ ’یہ امریکی فوجی قوت کی علامت ہے۔ یہ جہاز جہاں بھی جاتا ہے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔‘
کرنل کیتھ شلٹز نے بی 52 بمبار طیارہ 30 سال تک اڑایا ہے اور ان کا کہنا ہے: ’ہم جب اس جہاز پر ہتھیار لادتے ہیں تو دنیا اس کا نوٹس لیتی ہے۔ یہ جہاز میدان جنگ میں سب سے پہلے پہنچتا ہے۔ اس کا کام رکاوٹیں ہٹانا ہے تاکہ گیگر جہاز آ کر اپنا کام آسانی سے کر سکیں۔‘
رکاوٹیں ہٹانے والا یہ بمبار طیارہ 159 فٹ لمبی، اس کے پر 185 فٹ کے ہیں اور اس میں پانچ افراد سوار ہوتے ہیں۔
کرنل شلٹز کا اس طیارے کی آواز کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ آواز ’آزادی کی ہے۔‘
بی 52 طیارہ 650 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 50 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتا ہے جبکہ عام مسافر طیارہ 35 ہزار فٹ کی بلندی تک ہی جاتا ہے۔ بی 52 بمبار پر 70 ہزار پاؤنڈ وزنی ہتھیار لادے جاتے ہیں جن میں سینکڑوں روایتی ہتھیار اور 32 جوہری کروز میزائل شامل ہیں۔
اس بمبار میں فضا میں ایندھن بھرے جانے کی صلاحیت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا میں کسی جگہ بھی کارروائی کے لیے جا سکتا ہے۔
آپریشن ڈیزرٹ سٹورم میں حصہ لینے والے کرنل وارن وارڈ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ ایک بدشکل جہاز ہے لیکن یہ اپنا کام پورا کرتا ہے۔ دیگر جہاز بنائے گئے تاکہ بی 52 کی جگہ لی سکیں۔ بی ون بمبار آیا لیکن اس کی جگہ نہ لے سکا۔ پھر بی ٹو آیا اور وہ بھی کامیاب نہ ہوا۔‘
1950 سے اب تک بی 52 کا بیرونی حصہ تھوڑا تبدیل ہوا ہے، اور اندرونی طور پر اس جہاز میں اب کمپیوٹر اور جی پی ایس نظام نصب کر دیا گیا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس جہاز کو صرف ایک مقصد ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا ہو کہ اس کام بموں کی بارش کرنا ہے۔ لیکن بعد میں اس جہاز میں تبدیلی کی گئی اور اب یہ جہاز ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس کیا جا سکتا ہے۔
جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں جدت آتی گئی اسی طرح بی 52 میں بھی جدت لائی گئی۔ اس کے اوپر والے حصے میں عملے کا ایک اہلکار ریڈار جیمر آپریٹ کرتا ہے تاکہ طیارہ شکن میّائل اور جنگی طیاروں کو چکمہ دیا جا سکے۔
کیک کیب کا کہنا ہے ’ریڈار پر یہ طیارہ جانوروں کے باڑے جتنا دکھائی دیتا ہے۔ ہم کسی سے چھپتے نہیں ہیں۔ اس لیے ہم کیا کرتے ہیں وہ اہم بات ہے۔‘
کرنل وارن وارڈ کا کہنا ہے ’یہ جہاز جتنا بڑا ہے اس لحاظ سے اس کے اندر عملے کے لیے خاص جگہ نہیں ہے۔ یہ طیارہ لوگوں کے لیے تیار نہیں بلکہ بمباری کے لیے تیار کیا گیا تھا۔‘
کرنال وارڈ نے ایک بار یہ جہاز 47.2 گھنٹے تک اڑایا تھا۔ ’ہم نے برکسڈیل سے مشرق کی جانب اڑان بھری اور دوبارہ برکسڈیل پر لینڈ کیا۔ یعنی تقریباً پوری دنیا کا سفر کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس جہاز میں آرام کا سوچنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس میں صرف سیڑھی پر سیدھا کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔
’آپ اس میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کو گرمی کا احساس ہوتا ہے اور آپ کے پسینے چھوٹتے ہیں۔ لیکن جیسے آپ بلندی پر پہنچتے ہیں تو سخت سردی ہو جاتی ہے لیکن پسینے کی وجہ سے آپ کے کپڑے گیلے ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو مزید سردی لگتی ہے۔‘
بی 52 بمبار طیارے کی یہ صلاحیت کہ یہ دنیا بھر میں کارروائی کر سکے، جنگوں میں ایک نئی چیز ہے اور اس کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہے۔
شلٹز کا کہنا ہے ’یہ ایک انوکھا تجربہ ہے کہ ہزاروں میل دور جنگ میں حصہ لیا جائے۔ 25 ہزار فٹ کی بلندی پر آپ کو جنگ کی آوازیں نہیں آئیں۔ آپ کو دو سو پاؤنڈ بم کے پھٹنے کی آواز نہیں آتی۔‘
کرنل وارڈ کا کہنا ہے ’میں اپنے گھر میں سو کر اٹھتا، ٹیک آف کرتا، دنیا کے دوسرے حصے میں جنگ میں حصہ لے کر واپس اپنے گھر میں آ کر سو جاتا۔‘
بی 52 کے انجینیئروں کے عملے کے سربراہ جیکب ڈن کا کہنا ہے ’ہمارے سارے جہاز مونث ہیں۔ یہ توہم پرستی ہے۔‘
مستقبل میں بی 52 بمبار طیارے میں جدید اسلحے کا نظام، کمیونیکیشن نظام نصب کیے جائیں گے۔ لیکن اس کے پائلٹوں اور عملے کے لیے یہ ہمیشہ BUFF یعنی ’Big Ugly Fat ...‘ ہی رہے گا۔

دولت اسلامیہ کے مالیاتی امور کے سربراہ ’ ہلاک‘

Image copyrightAP
امریکی فوج نے اتحادیوں کے فضائی حملے میں خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے مالیاتی امور کے سربراہ کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
فوج کے ترجمان نے کہا کہ’حالیہ ہفتوں‘ میں کی جانے والی فضائی کارروائیوں میں دولتِ اسلامیہ کے مالیاتی امور کے انچارج موافق مصطفیٰ محمد الکرموش اپنے دو ساتھیوں سمیت مارے گئے۔
موافق الکرموش ابوصالح کی کنّیت سے پہنچانے جاتے تھے۔
عراقی دارالحکومت بغداد سے ویڈیو کال کے ذریعے ترجمان نے ان ہلاکتوں کی تصدیق تو کی لیکن کارروائی کے حوالے سے مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔
انھوں نے بتایا کہ’ابو صالح شدت پسند گروپ کے مالیاتی نیٹ ورک کے سینیئر اور تجربہ کار رکن تھے۔‘
دولت اسلامیہ کے خلاف کاروائیوں کے عالمی اتحاد متعلق امریکی صدر کے خصوصی ایلچی بریٹ مکگرک نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں دولت اسلامیہ کے تین جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دولتِ اسلامیہ کے مالیاتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔‘

چین کی بڑی کاروباری شخصیت ’لاپتہ‘



فنانشل میگزین کیکسن کا کہنا ہے کہ چین کے امیر ترین کاروباری شخصیتوں میں سے ایک گو گونگچین لاپتہ ہو گئے ہیں اور ان کی کمپنی کے ملازمین کا ان سے جمعرات سے رابطہ نہیں ہو رہا۔
کیکسن کا کہنا ہے کہ گو گونگچین کی کمپنی فوسن انٹرنیشنل کا عملہ جمعرات کی دوپہر سے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن رابطہ نہیں ہو رہا۔
فوسن انٹرنیشنل نے گو گونگچین کے لاپتہ ہونے کی حبروں کے بعد ہانگ کانگ میں اپنے حصص کی فروخت روک دی۔
کچھ اطلاعات کے مطابق گو گونگچین کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
فنانشل میگزین کیکسن نے سوشل میڈیا پر پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گو گونگچین کوآخری بار شنگھائی میں پولیس کے ہمراہ دیکھا گیا تھا۔
فوسن گروپ کے ساتھ قریبی روابط رکھنے والے ایک ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ گو گونگچین سے کمپنی کی اندرونی رابطہ کرنے والی موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے رابطہ نہیں ہو رہا۔
’یہ ممکن ہے کہ چینی حکام نے گو گونگچین سے تحقیقات میں مدد کرنے کو کہا ہے۔ ان کی تحقیقات نہیں ہو رہیں۔‘
تاہم ذرائع نے تحقیقات کے بارے میں مزید بات کرنے سے انکار کر دیا۔
Image copyrightReuters
Image captionفوسن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ گو گونگچین کے بارے میں مزید معلومات بعد میں جاری کریں گے
فوسن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ گو گونگچین کے بارے میں مزید معلومات بعد میں جاری کریں گے۔
بی بی سی کے نامہ نگار مائیکل برسٹو کا کہنا ہے کہ گو گونگچین کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ دوسری جانب فوربز میگزین کے مطابق ان کے اثاثوں کی مالیت سات بلین ڈالر ہے۔
فوسن گروپ کا میڈیا، انشورنس، پراپرٹی کا کام ہے اور حال ہی میں اس نے فرانسیسی کمپنی کلب میڈ خریدا ہے۔
ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج میں کمپنی نے اعلان کیا کہ کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت جمعہ کی صبح نو بجے سےروک دی گئی ہے۔

ورلڈ ٹی 20 کا شیڈول جاری، پاکستان بھارت ایک گروپ میں



انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے بھارت میں آئندہ برس آٹھ مارچ سے تین اپریل تک جاری رہنے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016 کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔
آئی سی سی کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق روایتی حریف پاکستان اور بھارت کو ایک گروپ میں رکھا گیا ہے جہاں دونوں ٹیمیں 19 مارچ سنہ 2016 کولکتہ میں مدِ مقابل ہوں گی۔
بیان کے مطابق 27 دن تک جاری رہنے والے اس ٹورنامنٹ میں مردوں کے 35 میچ بنگلور، چنائی، دھرم شالا، کولکتہ، موہالی، ممبئی، ناگپور اور نئی دہلی میں کھیلے جائیں گے۔
آئی سی سی کے مطابق اس ٹورنامنٹ کے سیمی فائنلز 30 اور 31 مارچ کو نئی دہلی اور ممبئی جبکہ فائنل تین اپریل کو کولکتہ میں کھیلا جائے گا۔
آٹھ مارچ سے تین اپریل سنہ 2016 تک کھیلے جانے والا یہ ٹورنامنٹ دو مراحل میں کھیلا جائے گا۔
آٹھ سے 13 مارچ کے دوران پہلے مرحلے کے لیے کھیلے جانے والے میچ دھرم شالا اور ناگپور میں کھیلے جائیں گے، جس کے لیے دو گروپس بنائے گئے ہیں۔
گروپ اے میں بنگلہ دیش، ہالینڈ، آئرلینڈ اور عمان جبکہ گروپ بی میں زمبابوے، سکاٹ لینڈ، ہانگ کانگ اور افغانستان کی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی۔
پہلے مرحلے کے گروپ ونرز 15 سے 28 مارچ کے دوران دوسرے مرحلے میں آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، پاکستان، جنوبی افریقہ، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بھارت کے ساتھ سپر 10 مرحلے میں مدِ مقابل ہوں گے۔
سپر 10 مرحلے کے لیے بھی دو گروپس بنائے گئے ہیں۔ گروپ ون میں سری لنکا، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، انگلینڈ اور گروپ بی کی فاتح ٹیم جبکہ گروپ ٹو میں پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور گروپ اے کی فاتح ٹیم شامل ہو گی۔
پاکستان کا پہلا میچ 16 مارچ کو کوالیفائر ٹیم کے خلاف ممبئی میں، دوسرا میچ 19 مارچ کو بھارت کے خلاف دھرم شالا ، تیسرامیچ 22 مارچ کو نیوزی لینڈ کے خلاف موہالی اور 25 مارچ کو آسٹریلیا کے خلاف موہالی میں ہی ہوگا۔
آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا آخری گروپ میچ 28 مارچ کو کھیلا جائے گا، 29 مارچ کو تمام ٹیمیں آرام کریں گی، 30 مارچ کو پہلا سیمی فائنل نئی دہلی میں، 31 مارچ کودوسرا سیمی فائنل ممبئی میں کھیلا جائے گا اور دو دن آرام کے بعد 3 اپریل کو کولکتہ میں ٹورنامنٹ کا فائنل ہوگا۔
آئی سی سی کے مطابق مردوں کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی انعامی رقم 5 کروڑ 60 لاکھ ڈالر ہے۔

’دہشت گردی کے الزامات ختم‘، ڈاکٹر عاصم نیب کے حوالے

Image copyrightBBC World Service
Image captionتفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردی کے الزامات میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے
کراچی میں احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ نیب کے علاوہ کسی اور ادارے کی ان تک رسائی نہیں ہوگی۔
جمعے کو دہشت گردی کے مقدمے سے بریت کے بعد نیب نے انھیں ہائی کورٹ سے سیدھا نیب عدالت کے جج کے روبرو پیش کیا۔
نیب کے افسر 15 روز کے ریمانڈ کی درخواست کی تاہم جج سعید قریشی نے سات روز کا ریمانڈ دینے کا فیصلہ کیا۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ ڈاکٹر عاصم حسین سے خاندان کی ملاقات کو یقینی بنایا جائے اور انھیں کھانا گھر سے فراہم کیا جائے۔
اس سے قبل سندھ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج نعمت اللہ پھلپوٹو نے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کر دیا ہے۔
جمعے کو سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم پر عائد دہشت گردی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین 106 روز رینجرز اور پولیس کی حراست میں رہے۔
رینجرز نے ان پر دہشت گردوں اور ملزمان کو پناہ دینے اور رعایتی نرخوں پر علاج معالجے کے الزامات عائد کیے تھے لیکن پولیس نے اپنی تحقیقات میں ان الزامات کو مسترد کر دیا۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردی کے الزامات میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے لہذا انھیں رہا کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عاصم کو جمعے کو سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات میں عدالت لایا گیا۔
اس پر عدالت نے ان سے سوال کیا کہ انھیں رہا کر دیا گیا ہے یا کیا جائے گا؟ تفتیشی افسر نے آگاہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم رہا ہیں لیکن عدالت کے احترام میں انھیں لایا گیا ہے۔
عدالت نے انھیں ہدایت کی کہ 497 سی آر پی سی کے تحت تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے جس کی شق کی تحت ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا گیا ہے، تفتیشی افسر نے یہ رپورٹ دس روز میں جمع کرانے کی یقین دہانی کرائی۔
سندھ حکومت اور رینجرز میں اختیارات کی کشیدگی کا عکس عدالت میں بھی نظر آیا جب رینجرز کے وکلا نے ڈاکٹر عاصم حسین کو بری نہ کرنے کی درخواست کی۔
پبلک پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ پولیس کے تفتیشی افسر نے ان سے مشاورت نہیں کی اور یہ بات غلط ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر عاصم حسین نے جن دہشت گردوں کا علاج کیا وہ مطلوب ملزمان تھے۔ لیاری امن کمیٹی کے ظفر بلوچ اور عمر کچھی سمیت دیگر کے علاج کا ریکارڈ عدالت کے پاس موجود ہے، اس کے علاوہ ڈپٹی میڈیکل افسر بھی اعترافی بیان میں یہ قبول کرچکے ہیں لیکن تفتیشی افسر نے اعلیٰ سیاسی عہدیداران اور اعلٰی پولیس حکام کہ کہنے پر یہ کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہپستال کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح رینجرز نے ہپستال کا محاصرہ کر کے ریکارڈ حاصل کیا۔
ڈاکٹر عاصم حسین نے عدالت سے مخاطب ہو کر کہا کہ جو بھی بل پیش کیے گئے وہ کمپیوٹر سے تیار کیے گئے ہیں، ان کا کوئی میڈیکل ریکارڈ دستیاب نہیں کہ کس ڈاکٹر نے اور کیا علاج کیا۔
ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ رینجرز کی 90 روز کی حراست کے دوران رینجرز ، قومی احتساب بیورو اور دیگر ادارے ان سے پوچھ گچھ کرتے رہے ہیں۔
اس موقعے پر قومی احتساب بیورو کے وکیل نے عدالت کو تحریری درخواست پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری زمین پر قبضے، رقومات کی غیر قانونی طریقے سے منتقلی اور دیگر معاملات میں ان سے تفتیش کرنی ہے لہذاانھیں نیب کی تحویل میں دیا جائے جس کے بعد انھیں نیب کے حوالے کردیا گیا۔
ڈاکٹر عاصم حسین سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں، ان کی گرفتاری پر آصف زرداری نے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔

’پائپ لائن کے تحفظ کے لیے طالبان سے بات کریں گے‘



پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت آنے والی گیس پائپ لائن کے منصوبے کو تحفظ دلانے کے لیے پاکستانی حکومت طالبان شدت پسندوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گی۔
’تاپی‘ کے نام سے مشہور اس گیس پائپ لائن منصوبے پر تعمیر کا کام اتوار 13 اگست سے شروع ہو گا جس کے لیے پاکستانی اور بھارتی وزیر اعظم ترکمانستان پہنچ رہے ہیں۔
دس ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی 1700 کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کو دو سال میں مکمل ہونا ہے۔
یہ پائپ لائن ابتدائی طور پر 27 ارب مکعب میٹر سالانہ گیس فراہم کر سکے گی جس میں سے دو ارب افغانستان اور ساڑھے 12 ارب مکعب میٹر گیس پاکستان اور بھارت حاصل کریں گے۔
پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ اس منصوبے میں شامل تمام ملکوں کے لیے یہ پائپ لائن بہت اہم ہے اور خاص طور پر پاکستان میں توانائی کے بحران کو کم کرنے میں اس منصوبے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
’اسی لیے ہماری بھرپور کوشش ہوگی یہ منصوبہ بر وقت مکمل ہو اور خاص طور پر اس منصوبے کو افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے جو ممکنہ خدشات لاحق ہو سکتے ہیں ان کا حل کیا جا سکے۔‘
اس سوال پر کہ پاکستان اس پائپ لائن کو تحفظ دینے کے لیے کیا افغانستان میں متحارب گروہوں، خاص طور پر طالبان شدت پسندوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا، وزیر دفاع نے کہا کہ ’ضرور استعمال کریں گے۔ اپنے مفاد کے لیے ہم جو بھی مثبت کردار ادا کر سکے ہم کریں گے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ منصوبہ افغانستان کے لیے بھی بہت اہم ہے اس لیے کوئی بھی افغان فریق اس منصوبے کی مخالفت نہیں کرے گا۔
انھوں نے 1990 کی دہائی میں اسی نوعیت کے ایک منصوبے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان میں برسر اقتدار طالبان نے امریکی کمپنی یونیکال کے ذریعے بننے والی گیس پائپ لائن کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔
’ہمیں اب بھی یقین ہے کہ طالبان شدت پسند اس منصوبے کی مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ یہ منصوبہ افغانستان کی معاشی بحالی کے لیے بھی اہم ہے اور کوئی بھی افغان گروہ اس کی مخالفت نہیں کر سکتا۔‘
اس منصوبے کے بروقت مکمل ہو جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ اس منصوبے نے مکمل تو ہونا ہے لیکن کچھ تاخیر ممکن ہے۔
’اس پائپ لائن نے بننا تو ضرور ہے۔ اس میں کچھ دیر سویر تو ہو سکتی ہے یعنی اگر 2018 میں نہ مکمل ہوئی تو 2019 میں تو یہ مکمل ہو ہی جائے گی۔‘