Friday, March 4, 2016

پاکستان: ’فیس بک‘ پر نفرت انگیز مواد شائع کرنے پر 13 سال قید کی سزا


رضوان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اُن کے موکل نے صرف فیس بک پر لگے ایک مواد کو 'لائیک' کیا تھا اور خود اسے شائع نہیں کیا، رضوان حیدر اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
فائل فوٹو
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ایک شخص کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر مذہبی منافرت پھیلانے والا مواد شائع کرنے سے متعلق تین جرائم میں مجموعی طور پر 13 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
صوبہ پنجاب کے ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر علیم چٹھہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے رضوان حیدر کو فیس بک پر انسداد دہشت گردی کے قانون کی دو دفعات اور توہین مذہب سے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 (A) کے تحت تین جرائم میں پانچ، پانچ اور تین سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
دفعہ 298 (A) کے تحت پیغمر اسلام، ان کے اہل خانہ، خلفہ راشدین یا صحابہ کے نام کی اہانت کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی دو دفعات فرقہ وارانہ نفرت یا تشدد پیدا کرنے والے مواد کو رکھنے اور اس کی تشہیر اور پھیلاؤ سے متعلق ہیں جن پر پانچ، پانچ سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
علیم چٹھہ نے بتایا کہ یہ مقدمہ فیصل آباد میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے پولیس اسٹیشن میں اس سال جنوری میں درج ہوا تھا۔
تاہم رضوان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اُن کے موکل نے صرف فیس بک پر لگے ایک مواد کو 'لائیک' کیا تھا اور خود اسے شائع نہیں کیا۔
لیکن سرکاری وکیل علیم چٹھہ کا کہنا تھا رضوان نے خلفائے راشدین کے بارے میں مواد اپ لوڈ، لائیک اور شیئر کیا تھا اور عدالت نے اس سلسلے میں دستاویزی ثبوت دیکھتے ہوئے سزا سنائی۔
اگرچہ مجرم کو سنائی جانے والی سزاؤں کا کل عرصہ 13 سال بنتا ہے مگر قانون کے تحت تمام سزاؤں پر ایک ہی وقت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے یعنی ملزم زیادہ سے زیادہ پانچ سال جیل میں گزارے گا۔
رضوان حیدر کو ہائی کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔
علیم چٹھہ نے کہا کہ فیصل آباد کی عدالت ایسے ہی تین، چار مقدمات میں مجرموں کو سزائیں سنا چکی ہے۔ ان کے بقو ل اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں دستاویزی ثبوت موجود ہوتا ہے جس کی تردید نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے خلاف بھرپور کارروائی کرتے ہوئے حالیہ مہینوں میں کئی پیش اماموں کو گرفتار کر کے سزا سنائی ہے۔

جولائی کنوینشن، امیدوار کا چناؤ دقت طلب نہیں ہوگا: پارٹی سربراہ

ریپبلیکن پارٹی کے سربراہ کے مطابق، ’’ابھی کافی دِن پڑے ہیں‘‘۔ ادھر، معروف ’کوک پولیٹیکل رپورٹ‘ کے مطابق، جمعرات کے مباحثے سے قبل، ٹرمپ ہی ریپبلیکن پارٹی کے وہ واحد امیدوار تھے جنھیں ضروری 1237 ڈیلیگٹ کی حمایت حاصل ہے

ریپبلیکن پارٹی کے جھگڑتے ہوئے صدارتی امیدواروں نے جمعے کے روز نامزدگی کے اگلے معرکوں کی تیاری کر لی ہے، جو اس اختتام ہفتہ متعدد ریاستوں میں منعقد ہوں  گے۔ قدامت پسندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، پارٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایسا کوئی امکان نہیں کہ جولائی کےکنوینشن میں چناؤ کے معاملے پر کوئی مشکل پیش آئے۔
واشنگٹن کے نزدیک میری لینڈ کےمضافات میں ’کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس (سی پی اے سی)‘ میں شریک سرگرم کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے، ریپبلیکن نیشنل کمیٹی کے چیرمین، رائن پریبس نےکہا کہ ’’کنوینشن کے دوران انتخاب میں کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں آئے گا‘‘۔
پریبس نے کنزرویٹو پارٹی کارکنوں کو یقین دلایا کہ جولائی کے کنویشن میں جو بھی صدارتی امیدوار نامزد ہوتا ہے، پارٹی مکمل طور پر اُس کی حمایت کرے گی۔بقول اُن کے، ’’ریپبلیکن پارٹی نامزد امیدوار کی 100 فی صد حمایت کرے گی۔‘‘
اُنھوں نے واضح کیا کہ پارٹی کے حلقے کسی ایک امیدوار کے حق میں یا خلاف نہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ’’ہم فریق نہیں بنا کرتے، قطع نظر اس بات کے کہ کوئی کیا سوچتا ہے یا پڑھتا ہے‘‘۔
ریبپلیکن پارٹی کے کچھ لوگ اس سوچ کے حامی ہیں کہ نیویارک کے کاروباری شخص، ڈونالڈ ٹرمپ، جو پرائمری دوڑ میں سرکردہ امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں اُنھیں روکا جائے، جس دوڑ میں ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز اور فلوریڈا کے مارکو روبیو کے علاوہ اوہائیو کے گورنر جان کسیچ شامل ہیں۔ جمعرات کی شام گئے ہونے والے مباحثے میں امیدواروں نے تلخی کا مظاہرہ کیا۔