امریکہ
میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں قید امریکی بحریہ کے ایک
اہلکار کے وکلا کا کہنا ہے کہ تیس سال قید کاٹنے کے بعد ان کے موکل کو
نومبر میں رہا کیا جائے گا۔
جانتھن پولارڈ امریکی بحریہ میں
انٹیلیجنس تجزیہ کار تھے اور 1987 میں انھیں اسرائیل کو خفیہ امریکی
دستاویزات دینے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
امریکی
وزیرِ خارجہ جان کیری نے اس خیال کو رد کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے
تعلقات میں ایران کے جوہری معاہدے کے حوالے سے پیدا ہونے والے کشیدگی میں
کمی کے لیے پولارڈ کو رہا کیا جا رہا ہے۔ جانتھن پولارڈ کا معاملہ دونوں
ممالک کے درمیان کئی سالوں سے تناوع کا باعث ہے۔
پولارڈ کی رہائی کی
افواہیں کئی روز سے گردش میں ہیں اور کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی
رہائی ایران کے ساتھ مغربی ممالک کے جوہری معاہدے سے منسلک ہے۔
تاہم
حکام کا کہنا ہے کہ ابتدا ہی سے 30 سال قید کے بعد جانتھین پولارڈ کو رہائی
دی جا سکتی تھی اور ان کی رہائی کافیصلہ کرنے والے حکام امریکی انتظامیہ
کے کسی اور ادارے کے دباؤ میں نہیں تھے۔
جانتھن پولارڈ کے وکلا کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کے موکل کی رہائی کا مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت سے کوئی تعلق نہیں۔
ادھر
امریکی وزیرِ خارجہ نے امریکی ایوانِ زیریں کی کمیٹی کے سامنے ایرانی
جوہری معاہدے کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جانتھن
پولارڈ کی رہائی کے حوالے سے کہا کہ ’میں نے اس سلسلے میں کسی سے بات تک
نہیں کی ہے۔‘
ساٹھ سالہ پولارڈ نے امریکی بحریہ میں بطور سویلین
انٹیلیجنس تجزیہ کار 1979 میں سروس شروع کی اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد انھوں
نے خفیہ امریکی دستاویزات پیش کرنا شروع کر دیں۔
بحریہ اور ایف بی آئی کے حکام نے
1985 میں ان سے پوچھ گچھ کی جب یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے دفتر سے کچھ خفیہ
دستاویزات چوری کیے ہیں۔ جاسوسی کے الزامات کے پیشِ نظر انھوں نے اسرائیلی
سفارتخانے میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر اسرائیلی حکام نے انھیں اس کی
اجازت نہیں دی اور جلد ہی ایف بی آئی نے انھیں گرفتار کر لیا۔
ابتدا
میں اسرائیل نے اس بات کی تردید کی کہ جانتھن پولارڈ ان کے جاسوس تھے تاہم
1996 میں انھیں اسرائیلی شہریت دی گئی اور اس سےس دو سال قبل اسرائیل نے ان
کے ایجنٹ ہونے کا اعتراف بھی کیا۔
پولارڈ کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا
ہے کہ انھوں نے اسرائیل کو دستاویزات اس لیے دیے کیونکہ امریکی اپنے اتحادی
کو اہم معلومات فراہم نہیں کر رہا تھا۔
ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ
انھیں سزا غلط دی گئی اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے ماضی میں
بھی امریکہ سے ان کی رہائی کی کوشش کی ہے۔
گذشتہ سال اسرائیلی فلسطینی مذاکرات میں امریکہ نے پولارڈ کی رہائی کا لالچ دینے کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات ہی ناکام ہوگئے۔
یہ
بات سنہ 2005 کی ہے جب جنرل پرویز مشرف ہندوستان آئے تھے اور انھوں نے اس
وقت بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ساتھ صدر اے پی جے عبدالکلام
سے بھی ملاقات کی تھی۔
’میزائل مین‘ کے نام سے مشہور ہندوستان کے سابق صدر اے پی جے عبدالکلام اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔
ملاقات سے ایک دن پہلے عبدالکلام کے سیکریٹری پی کے نائر ان کے پاس بريفنگ کے لیے گئے تھے۔
پی کے نائر نے انھیں بتایا: ’سر کل جنرل مشرف آپ سے ملنے آ رہے ہیں۔‘ انھوں نے جواب دیا، ’ہاں مجھے پتہ ہے۔‘
نائر نے کہا: ’وہ ضرور کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں گے۔ آپ کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘
کلام ایک لمحے کے لیے ٹھٹھكے، ان کی طرف دیکھا اور کہا: ’اس کی فکر نہ کریں۔ میں سب سنبھال لوں گا۔‘
اگلے دن ٹھیک سات بج کر 30 منٹ پر پرویز مشرف اپنے قافلے کے ساتھ ایوانِ صدر پہنچے۔ انھیں پہلی منزل پر ڈرائنگ روم میں لے جایا گیا۔
عبدالکلام نے ان کا استقبال کیا۔ ان کی کرسی تک گئے اور ان کے پاس بیٹھے۔ ملاقات کا وقت 30 منٹ طے تھا۔
عبدالکلام
نے گفتگو شروع کی: ’صدر صاحب، بھارت کی طرح آپ کے ملک میں بھی بہت سے دیہی
علاقے ہوں گے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں ان کی ترقی کے لیے جو کچھ ممکن ہو
کرنا چاہیے؟‘
جنرل مشرف ’جی ہاں‘ کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے تھے!
سائنسداں بھی سفارتکار بھی
عبدالکلام
نے کہنا شروع کیا: ’میں آپ کو مختصراً ’پورا‘ کے بارے میں بتاؤں گا۔ پورا
کا مطلب ہے پرووائڈنگ اربن فیسی لیٹیز ٹو رورل ایریاز۔‘
پس پشت
آویزاں پلازما سکرین پر حرکت ہوئی اور کلام نے اگلے 26 منٹ تک مشرف کو
لیکچر دیا کہ ’پورا‘ کا کیا مطلب ہے اور اگلے 20 سالوں میں دونوں ممالک اسے
کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔
30منٹ بعد مشرف نے کہا: ’شکریہ صدر صاحب۔ بھارت خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس آپ جیسا ایک سائنس دان صدر ہے۔‘
مصافحہ کیا گيااور نائر نے اپنی ڈائری میں لکھا: ’عبدالکلام نے آج ثابت کر دیا کہ سائنس دان بھی سفارت کار ہو سکتے ہیں۔
تین لاکھ 52 ہزار روپے
مئی
سنہ 2006 میں صدر عبدالکلام کا سارا کنبہ ان سے ملنے دہلی آیا۔ مجموعی طور
پر ان میں 52 لوگ شامل تھے۔ ان میں 90 سال کے بڑے بھائی سے لے کر ان کی
ڈیڑھ سال کی پڑپوتي بھی تھی۔
یہ لوگ آٹھ دن تک صدارتی محل میں ٹھہرے۔ اجمیر شریف بھی گئے۔ کلام نے ان کے ٹھہرنے کا کرایہ اپنی جیب سے ادا کیا۔
یہاں
تک کہ ایک پیالی چائے تک کا حساب رکھا گیا اور ان کے جانے کے بعد کلام نے
اپنے اکاؤنٹ سے تین لاکھ 52 ہزار روپے کا چیک کاٹ کر صدارتی دفتر کو بھیجا۔
ان کے صدر رہتے یہ بات کسی کو پتہ نہیں چلی۔
بعد میں جب ان کے سیکریٹری نائر نے ان کے ساتھ گزارے گئے دنوں پر کتاب لکھی، تو پہلی بار اس کا ذکر سامنے آیا۔
افطار کا پیسہ یتیم خانے کو
اسی طرح نومبر سنہ 2002 میں
رمضان کے مہینے میں کلام نے اپنے سیکریٹری کو بلا کر پوچھا: ’یہ بتائیے کہ
ہم افطار کے ڈنر کا اہتمام کیوں کریں؟ ویسے بھی یہاں مدعو کیے جانے والے
افراد کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں۔ آپ افطار پر کتنا خرچ کرتے ہیں؟‘
صدارتی
محل کی مہمان نوازی کے محکمہ کے سربراہ کو فون لگایا گیا۔انھوں نے بتایا
کہ افطار کی دعوت پر تقریبا ڈھائی لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔
عبدالکلام
نے کہا: ’ہم یہ پیسہ یتیم خانوں کو کیوں نہیں دے سکتے؟ آپ یتیم خانوں کا
انتخاب کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ یہ پیسہ ضائع نہ ہو۔‘
صدارتی محل
کی جانب سے افطار کے لیے مقرر رقم سے آٹے، دال، کمبل اور سوئٹر کا انتظام
کیا گیا اور اسے 28 یتیم خانوں کے بچوں میں تقسیم کیا گیا۔
لیکن بات
یہیں ختم نہیں ہو گئی۔ کلام نے نائر سے کہا: ’یہ چیزیں تو آپ نے حکومت کے
پیسے سے لی ہیں اس میں میرا حصہ کیا ہوا؟ میں آپ کو ایک لاکھ روپے کا چیک
دے رہا ہوں۔ اس کا بھی اسی طرح استعمال کیجیے جیسے آپ نے افطار کے لیے مختص
رقم کا کیا ہے، لیکن کسی کو یہ مت بتائیے کہ یہ پیسے میں نے دیے ہیں۔‘
بارش نے بھی کلام کا خیال رکھا
صدر
عبدالکلام بھارت کے سب سے زیادہ فعال صدر تھے۔ اپنے پورے دور اقتدار میں
انھوں نے 175 دورے کیے۔ ان میں سے صرف سات غیر ملکی دورے تھے۔
وہ لكش ديپ کو چھوڑ کر بھارت کی ہر ریاست میں گئے۔
15 اگست سنہ 2003 کو کلام نے یوم
آزادی کے موقعے پر شام کو صدارتی محل کے لان میں ہمیشہ کی طرح ایک چائے
پارٹی رکھی جس میں تقریبا 3000 لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
صبح آٹھ
بجے سے جو بارش شروع ہوئی تو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ صدارتی محل کے
افسر پریشان ہو گئے کہ اتنے سارے لوگوں کو عمارت کے اندر چائے نہیں پلائی
جا سکتی۔
فوری طور پر 2000 چھتریوں کا انتظام کیا گیا۔
جب دوپہر بارہ بجے صدر کے سیکریٹری ان سے ملنے گئے تو کلام نے کہا: ’کیا شاندار دن ہے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔‘
سیکریٹری نے کہا: ’آپ نے 3000 لوگوں کو چائے پر بلا رکھا ہے۔ اس موسم میں ان کا استقبال کس طرح کیا جا سکتا ہے؟‘
کلام نے کہا: ’فکر مت کیجیے ہم صدارتی محل کے اندر لوگوں کو چائے پلائیں گے۔‘
’اوپر بات کر لی ہے‘
سیکریٹری نے کہا ہم زیادہ سے
زیادہ 700 لوگوں کو اندر لا سکتے ہیں۔ میں نے 2000 چھتریوں کا انتظام تو کر
لیا ہے لیکن یہ بھی شاید کم پڑیں۔
کلام نے ان کی طرف دیکھا اور بولے: ’ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اگر بارش جاری رہی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔۔۔ہم بھيگيں گے ہی نہ!‘
پریشان،
بدحواس نائر دروازے تک پہنچے تھے کہ عبدالکلام نے انھیں آواز دی اور آسمان
کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’آپ پریشان نہ ہوں، میں نے اوپر بات کر لی ہے۔‘
اس وقت دن کے 12 بج کر 38 منٹ ہوئے تھے۔
ٹھیک
2 بجے اچانک بارش تھم گئی۔ سورج نکل آیا۔ ساڑھے پانچ بجے عبدالکلام روایتی
طور پر لان میں تشریف لائے۔ اپنے مہمانوں سے ملے۔ ان کے ساتھ چائے پی اور
سب کے ساتھ تصویر كھنچوائي۔ سوا چھ بجے قومی ترانہ ہوا۔
جیسے ہی کلام
ایوان صدر کی عمارت کی چھت کے نیچے پہنچے، پھر سے جھماجھم بارش شروع ہو
گئی۔ انگریزی میگزین ویک کے اگلے شمارے میں ایک مضمون ’چھپا، قدرت بھی کلام
پر مہربان۔‘
افغانستان
میں حکام کے مطابق افغان طالبان تحریک کے امیر ملا محمد عمر ہلاک ہو چکے
ہیں لیکن ابھی تک افغان طالبان نے اس دعوے پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
افغان
حکومت اور انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق گذشتہ کئی برس سے مسلسل روپوشی کی
زندگی گزانے والے طالبان رہنما ملا عمر دو یا تین برس پہلے ہلاک ہو گئے
تھے۔
ان اطلاعات پر افغان طالبان کے ترجمان سے بی بی سی نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جلد ہی بیان جاری کیا جائے گا۔
ماضی میں بھی ملا عمر کی ہلاکت کی متعدد بار خبریں آ چکی ہیں۔
ملا محمد عمر زندہ یا مردہ؟
چند دن پہلے ہی عید الفطر کے موقع
پر ایک پیغام میں ملا عمر نے ’افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کرنا جائز‘
قرار دیا تھا تاہم انھوں نے پچھلے ہفتے پاکستان میں افغان حکومت اور
طالبان رہنماؤں کے مذاکرات کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سنہ 1996 میں ملا عمر کو ’امیر المومنین’ کا خطاب دیا گیا تھا۔
سنہ
2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد سے ملا عمر منظر عام پر نہیں
آئے ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کو اپنا انٹرویو یا تصویر دینے سے بھی گریز کرتے
ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے شدت پسند تنظیموں میں ملا عمر کے زندہ ہونے یا مرنے کے حوالے سے کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
بالخصوص
عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے سرگرم ہونے اور ابوبکر بغدادی کی جانب
سے خلافت کے اعلان کے بعد سے یہ سوالات مزید زور پکڑنے لگے تھے۔
صنعا۔ 20 جولائی ۔ ( سیاست ڈاٹ کام) جنوبی بندرگاہی شہر عدن کے
قریب ایک ٹاؤن میں شیعہ باغیوں کی شلباری کے نتیجہ میں مرنے والوں کی تعداد
تقریباً 100 تک پہنچ گئی ہے ۔ بین الاقوامی امدادی گروپ کے سربراہ نے اسے
شہر کا بدترین دن قرار دیا۔ حوثی باغیوں اور اُن کے حلیفوں نے دارسعد ٹاؤن
میں کل شلباری شروع کردی تھی حالانکہ پڑوسی عدن علاقہ میں اُن کا کنٹرول
ختم ہوچکا ہے ۔ حسن بوسینی جو جنیوا میں واقع میڈیسن سائنس فرنٹیریس کے
سربراہ ہیں بتایاکہ اُن کی تنظیم کو ملنے والی اطلاع کے مطابق مہلوکین کی
تعداد 100 کے قریب پہونچ چکی ہے ۔ اس شلباری میں تقریباً 200 افراد زخمی
ہوئے ہیںجن میں 80 فیصد عام شہری ہیں اور ان میں بھی کئی حاملہ خواتین ،
معمر افراد اور بچے شامل ہیں۔
شام کی سرحد کے قریب واقع ٹاؤن میں کارروائی، آئی ایس پر شبہ
استنبول ۔ 20 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ترکی کے شہر سوروچ میں جو شام کی سرحد
سے قریب واقع ہے، زوردار دھماکہ ہوا، جس کے نتیجہ میں 30 افراد ہلاک اور
تقریباً ایک سو دیگر زخمی ہوگئے۔ ترکی حکام کا کہنا ہیکہ یہ کارروائی مملکت
اسلامیہ (آئی ایس) سے متاثر ہوکر کی گئی ہے۔ آج دوپہر کے وقت سوروچ میں
واقع کلچرل سنٹر میں یہ دھماکہ اس وقت ہوا جبکہ ایک سیاسی گروپ فیڈریشن آف
سوشلسٹ یوتھس کی نیوز کانفرنس اختتام پذیر تھی۔ اس میں شام کے شہر کوبانی
کی تعمیر نو کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ تاحال کسی نے بھی اس حملہ کی ذمہ
داری قبول نہیں کی ہے لیکن ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے کہاکہ ترکی کو شبہ
ہیکہ اس دھماکہ کے پس پردہ آئی ایس ملوث ہوسکتی ہے۔ سوروچ کوبانی کی سرحد
سے متصل رہے اور یہاں کرد گروپس و آئی ایس گروپ کے مابین گھمسان کی لڑائی
جاری رہی۔ اس شہر میں شام کے کردوں کی زیادہ آبادی ہے اور آئی ایس کو گذشتہ
سال یہاں سب سے بڑی شکست ہوئی تھی۔ فاطمہ عدمین نے بتایا کہ اس فیڈریشن سے
وابستہ تقریباً 200 نوجوانوں نے کوبانی کی تعمیر نو میں حصہ لینے کا فیصلہ
کیا تھا کہ اچانک بم دھماکہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوست نے انہیں بچا
لیا ۔ پہلے ایسا محسوس ہوا جیسے موت ان کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن وہ بالکل
ٹھیک ہے۔ اس کے کچھ دیر بعد انہیں ہر طرف نعشیں دکھائی دیں اور انہوں نے
یہاں سے بھاگنا شروع کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہاسپٹل پہنچنے کے بعد معمولی
زخمی کا علاج کیا گیا۔ شام کے شہر کوبانی پر خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے
والی تنظیم کے حملے کے بعد وہاں سے لوگوں کی بڑی تعداد نے سوروچ میں پناہ
لی تھی جہاںشامی پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ واقع ہے اور اس میں 35 ہزار
کے قریب شامی پناہ گزین موجود ہیں۔ کوبانی میں گذشتہ سال ستمبر سے ’دولت
اسلامیہ‘ کے شدت پسندوں اور کرد جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
حیدرآباد ۔ 20 ۔ جولائی (سیاست نیوز) شہر و نواحی علاقوں میں پیش
آئے سڑک حادثات میں 6 افراد بشمول ایک خاتون ہلاک ہوگئے۔ بلارم ، الوال ،
تکا رام گیٹ ، نریڈ میٹ پولیس حدود میں یہ سڑک حادثات پیش آئے ۔ بلارم
پولیس کے مطابق 25 سالہ احمد شاہ جو سلطان شاہی علاقہ کا ساکن کل رات موٹر
سیکل پر بلارم علاقہ سے گزر رہا تھا کہ موٹر سیکل بے قابو ہوکر حادثہ کا
شکار ہوگئی اور احمد شاہ شدید زخمی حالت میں علاج کے دوران فوت ہوگیا جبکہ
بلارم پولیس حدود میں پیش آئے ایک اور سڑک حادثہ میں 30 سالہ محمد سمیر
الدین ہلاک ہوگیا جو اپنے ساتھی کے ہمراہ موٹر سیکل پر بلارم علاقہ سے گزر
رہا تھا ۔ سمیر تالاب کٹہ بھوانی نگر علاقہ کا ساکن تھا، پولیس ذرائع کے
مطابق موٹر سیکل بے قابو ہونے کے سبب یہ حادثہ پیش آیا۔ الوال پولیس کے
مطابق 38 سالہ سوریہ پرکاش جو بابو نگر علاقہ کا ساکن تھا، پیشہ سے خانگی
ملازم بتایا گیا ہے ۔ پرکاش موٹر سیکل پرکل رات اندرا نگر الوال سے گزر رہا
تھا کہ نامعلوم گاڑی کی زد میں آکر برسر موقع ہلاک ہوگیا ۔ تکا رام گیٹ
پولیس کے مطابق جو بالاجی جواڈہ گٹہ علاقہ کا ساکن کل رات موٹر سیکل پر
جارہا تھا کہ مخالف سمت سے موٹر سیکل ٹکرانے کے سبب حادثہ پیش آیا اور یہ
شخص شدید زخمی حالت میں علاج کے دوران فوت ہوگیا ۔ نریڈ میٹ پولیس کے مطابق
18 سالہ روی کرن جو طالب علم بتایا گیا ہے۔ نریڈ میٹ علاقہ میں رہتا تھا ۔
آج روی کرن موٹر سیکل پر جارہا تھا کہ اے ایس راؤ نگر علاقہ میں حادثہ پیش
آیا ، جس میں کرن نامعلوم گاڑی کی زد میں آکر ہلاک ہوگیا ۔ عثمانیہ
یونیورسٹی پولیس کے مطابق 40 سالہ راتھی جو راگھو بندر نگر کالونی کے ساکن
کمل کشور کی بیوی تھی، کل رات پیش آئے حادثہ میں وہ فو ت ہوگئی۔ پولیس نے
مقدمات درج کرلئے ہیں اور مصروف تحقیقات ہے۔
نئی دہلی ۔ 20 جولائی ۔ ( سیاست ڈاٹ کام) پارلیمنٹ میں حکومت اور
اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی یقینی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ مانسون سیشن کے
سلسلہ میں آج منعقدہ کل جماعتی اجلاس میں تعطل برقرار رہا اور للت مودی و
ویاپم اسکام کے تعلق سے دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہے ۔ وزیراعظم
نریندر مودی نے تمام مسائل پر بحث کی پیشکش کی۔ تاہم حکومت نے کسی کے بھی
استعفیٰ کا امکان مسترد کردیا۔ وزیر پارلیمانی اُمور ایم وینکیا نائیڈو نے
کہاکہ کسی کے بھی الٹی میٹم کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
انھوں نے کہاکہ استعفیٰ کا سوال ہی کہاں سے پیدا ہورہا ہے ؟ کوئی بھی حکومت
پر اپنی شرائط مسلط نہیں کرسکتا ۔ انھوں نے واضح طورپر کہا کہ حکومت کی
طرف سے کسی بھی مرکزی وزیر نے کوئی غیرقانونی یا غیراخلاقی کام نہیں کیا ہے
۔ وہ قائد اپوزیشن غلام نبی آزاد کے اس تبصرہ پر ردعمل ظاہر کررہے تھے کہ
اگر مودی پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کو موثر انداز میں چلانے کے خواہاں ہیں
تو انھیں چاہئے کہ وزیر اُمور خارجہ سشما سوراج ، چیف منسٹر راجستھان
وسندھرا راجے اور چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کو برطرف کردیں۔
نریندر مودی نے تمام جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ پارلیمنٹ میں تمام مسائل پر
بحث کریں اور دونوں ایوان کی کارروائی کو موثر طورپر چلانا سب کی ذمہ داری
ہے ۔ انھوں نے متنازعہ اراضی بل کے سلسلے میں بھی اجتماعی طورپر آگے بڑھنے
کی ضرورت ظاہر کی ۔ اس بل کی مختلف اپوزیشن جماعتیں سختی سے مخالفت کررہی
ہیں ۔ کانگریس تاہم اپنے اس موقف ’’استعفیٰ نہیں تو کارروائی نہیں ‘‘کے
سلسلے میں ایسا لگتا ہے کہ یکا و تنہا ہوگئی ہے کیونکہ دیگر کئی جماعتوں کا
اجلاس میں یہ موقف تھا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو بالکلیہ ناکام بنانا
مسئلہ کا حل نہیں ۔ وینکیا نائیڈو نے کہا کہ 29 اپوزیشن جماعتوں نے کانگریس
کے اس موقف کی تائید نہیں کی ۔ تاہم این سی پی کے طارق انور اور سی پی آئی
ایم کے سیتا رام یچوری کا یہ احساس تھا کہ حکومت کو کارروائی کرنی چاہئے ۔
لوک سبھا میں کانگریس وہپ کے سی وینو گوپال نے کہاکہ ہم مختلف بلز کی
منظوری کیلئے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے تیار ہیں لیکن اس ضمن میں حکومت کا
بھی مکمل تعاون ملنا چاہئے اور کئی اہم موضوعات جیسے ویاپم ، للت تنازعہ
اور ہند پاک روابط پر بامقصد کارروائی ہونی چاہئے ۔
نئے شرائط سے دستبرداری ضروری ‘ وزیر اقلیتی بہبود نجمہ ہپت اللہ کو مکتوب روانہ کرنے جناب زاہد علی خان کا فیصلہ
حیدرآباد ۔20 جولائی (سیاست نیوز)مرکزی حکومت کی جانب سے اقلیتی طلبہ کو
دی جانے والی پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے سلسلے میں نئے قواعد
نے طلبہ کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ مرکزی وزارت ِ اقلیتی اُمور کی جانب
سے اسکالرشپ کے حصول کیلئے جاری کردہ نئے رہنمایانہ خطوط میں جن قواعد کو
شامل کیا گیا، وہ اقلیتی طلبہ کیلئے اسکالرسے محرومی کا سبب بن سکتے ہیں۔
مرکزی حکومت نے درخواستوں کے ادخال کے وقت جن دستاویزات کو لازمی قرار دیا
ہے، ان میں طلباء کے سرپرستوں کا انکم سرٹیفکیٹ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ٹیوشن
فیس، ایڈمیشن فیس کو بھی شامل کیا گیا۔ مذکورہ تینوں نئی شرائط اقلیتی
طلبہ کیلئے دشواریوں کا سبب بن رہی ہیں۔ سرکاری اسکولوں سے تعلق رکھنے والے
طلبہ، ٹیوشن فیس اور ایڈمیشن فیس کی تفصیلات اور رسائد داخل نہیں کرسکتے
کیونکہ سرکاری مدارس میں اس طرح کی فیس کا کوئی نظم نہیں ہے۔ طلبہ کے
سرپرستوں کا انکم سرٹیفکیٹ بھی ہزاروں طلبہ کو اسکالرشپ سے محروم کرنے کا
سبب بن سکتا ہے۔ ریوینیو عہدیدار اور تحصیلدار سے انکم سرٹیفکیٹ حاصل کرنا
انتہائی دشوارکن مرحلہ ہے، اس کے حصول کیلئے کم سے کم تین تا چار ہفتے
درکار ہیں۔ حکومت کی مختلف اسکیموں کے لئے انکم سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا
گیا لہذا ریوینیو دفاتر میں انکم سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے عوام کا ہجوم
موجود رہتا ہے۔ ایسے میں اسکالرشپ کے حصول کیلئے طلبہ کو انکم سرٹیفکیٹ
حاصل کرنا آسان نہیں۔ انکم سرٹیفکیٹ کی اجرائی کیلئے کئی درمیانی افراد
سرگرم دکھائی دیتے ہیں جو بھاری رقم حاصل کرکے سرٹیفکیٹ کی اجرائی کو یقینی
بناتے ہیں۔ اگر طلبہ ان درمیانی افراد کا سہارا لیں تو انہیں اسکالرشپ کی
رقم سے زیادہ رقم درمیانی افراد کو ادا کرنی پڑے گی۔ مرکزی حکومت کو چاہئے
کہ وہ مذکورہ تین نئی شرائط سے دستبرداری اختیار کرے۔ حکومت نے طلبہ کیلئے
لازمی قرار دیا ہے کہ وہ درخواستوں کے ادخال کے وقت تمام ضروری اسنادات کی
اسکیاننگ کریں۔ سابق میں اس طرح کی شرط عائد نہیں تھی اور اسنادات کے
زیراکس قبول کئے جاتے تھے۔ تمام اسنادات اور دستاویزات کی اسکیاننگ پر طلبہ
کو رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ پری میٹرک اسکالرشپ کیلئے درخواستوں کے ادخال کی
آخری تاریخ 31 جولائی ہے اور طلبہ کیلئے اس قدر کم مدت میں ممکن نہیں کہ
وہ ریوینیو عہدیداروں سے انکم سرٹیفکیٹ حاصل کریں۔ اس مسئلہ پر ایڈیٹر
سیاست جناب زاہد علی خاں نے نہ صرف اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کی توجہ
مبذول کرائی بلکہ مرکزی وزیر اقلیتی اُمور نجمہ ہپت اللہ کو مکتوب روانہ
کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر حکومت نئے قواعد سے دستبرداری اختیار نہیں کرے
گی تو ہزاروں طلبہ اسکالرشپ سے محروم ہوجائیں گے۔