علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جو پہلے ہی اپنے اقلیتی تشخص کو برقرار رکھنے کےلیے کوشاں ہے، ایک اور تنازعے میں پھنس گئی ہے۔
اس بار یہ تنازع جمعہ کے روزسوشل میڈیا پر ایسی رپورٹ سامنے آنے کے بعد شروع ہوا کہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں ’بیف بریانی‘ فروخت ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بریانی میں استعمال ہونے والا گوشت گائے کا ہے اور اس رپورٹ کے ساتھ یونیورسٹی کی کینٹین کے مینیو کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
یونیورسٹی نے گائے کے گوشت کے الزام کو رد کرتے ہوئے کہا کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی وہ واحد ادارہ ہے جہاں ایک سو سال پہلے گائے کا گوشت بیچنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جو اب بھی برقرار ہے۔
علیگڑہ شہر کی میئر شکونتکہ بھارتی نے، جن کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے، سنیچر کے روز بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ہمراہ پولیس سربراہ کےدفتر کے سامنے مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ پولیس یونیورسٹی کی کینٹین کے ٹھیکیدار کے خلاف مقدمہ درج کرے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کی ابتدائی تحقیقات کر رہی ہے۔
جب یہ خبر سوشل میڈیا پر چلی تو یونیورسٹی کے پراکٹر محسن خان نے یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کی کینٹین کا دورہ کیا اور ابتدائی تحقیقات کیں۔
علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کے ترجمان راحت ابرار نے واضح کیا کہ بیف بریانی میں گائے کےگوشت کے استعمال کا الزام اس گھناؤنی سازش کا حصہ ہے جو یونیورسٹی کے تشخص کو خراب کرنےکے لیے تیار کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بریانی میں جس بیف کا ذکر ہے وہ دراصل بھینس کا کوشش ہے نہ کہ گائے کا۔
یونیورسٹی کے ترجمان نے کہا کہ یہ الزام ادارے کو بدنام کرنے کی سازش کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جس بیف بریانی کا ذکر ہے وہ دراصل بھینس کے گوشت سے تیار کی گئی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یونیورسٹی کی کینیٹن کےٹھیکے کی معیاد 23 فرروی کو ختم ہو رہی ہے کچھ لوگ یہ اس ٹھیکے کو لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ اسی لیے جان بوجھ کر تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment