ایران میں پارلیمان اور شوری نگہبان کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے اور اس کے نتائج کس طرح بھی حیران کر دینے والی چیز سے کم نہیں ہیں۔
دارالحکومت ایران میں صورتحال بالکل واضح ہے۔ حکومت نواز جماعتوں نے تہران کی 30 نشستیں حاصل کر کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں مکمل فتح حاصل کر لی ہے جو سخت گیر حلقوں کے لیے ایک شرمناک شکست ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دوسرے یعنی شوری نگہبان کے انتخاب میں ایران کے اصلاح پسند صدر حسن روحانی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے اہم سخت گیر رہنماؤں کو شکست دے دی ہے۔ تکنیکی اعتبار سے یہ علما کونسل سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے انتقال کے بعد، اُن کے جانشین کا انتخاب کرنے کا اہم کام سر انجام دے گی۔
فاتح اُمیدواروں کی فہرست میں شامل سیاستدانوں کا اتحاد بے جوڑ تھا، اس میں معتدل اُمیدوار اور کچھ سابقہ سخت گیر رہنما بھی شامل تھے۔
اگرچہ یہ گروہ اب بھی سماجی طور پر قدامت پسند جانا جاتا ہے جبکہ حالیہ چند برسوں کے دوران اِنھوں نے صدر روحانی کی متعدل پالیسیوں کی کھل کر حمایت کی ہے، خاص طور پر بیرونی دنیا کے ساتھ اُن کے تعلقات اور عالمی طاقتوں کے ساتھ کامیاب جوہری معاہدے کے حوالے سے۔
انتخابی امیدواروں کی جانچ کرنے والی نگران کونسل کی جانب سے تقریباً تمام معروف اصلاح پسند امیدواروں اور کئی اعتدال پسند اُمیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اصلاح پسند رہنماؤں نے نئے اتحاد کی بنیاد رکھی اور اپنے حمایتی عوام سے حکمت عملی کے بنیاد پر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔
بڑے پیمانے پر نا اہلیوں اور عوام کی عدم دلچسپی کے پیش نظر بہت سے مبصرین نے انتخابی مہم کے یک طرفہ رہنے کی پیشن گوئی کی تھی۔ مبصرین کے خیال میں اِن حالات کی وجہ سے سخت گیر با آسانی انتخابات میں فتح حاصل کرلیں گے۔
لیکن انتخابی مہم کے آخری حصے میں صورت حال یکدم تبدیل ہوگئی اور ایرانی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ لیکن یہ کس طرح ہوا۔
انگریزوں کی فہرست
گلیوں میں سُست روی سے چلنے والی انتخابی مہم انٹرنیٹ پر اس کے برعکس رہی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹیں اس سیاسی بھونچال کے لیے بہترین جگہ ثابت ہوئیں ۔
ٹیلی گرام (ایران کی معروف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ) کے دو کروڑ صارفین، ٹوئٹر کے لاکھوں اور فیس بک کے صارفین نے اپنے ہتھیار اکھٹے کرکے فوری ہی دھاوا نہیں بول دیا بلکہ صورتحال کی مناسبت سے آہستہ آہستہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، جس کا انتخاب کی شام تک کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
آن لائن مہم کو مہمیز دینے والوں میں سے ایک خود سپریم لیڈر بھی تھے، جنھوں نے انتخابات سے چند روز قبل ووٹروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’دا انگلش لسٹ‘ یعنی ’انگریزوں کی فہرست‘ سے باخبر رہیں۔
اُنھوں نے برطانیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ مخصوص اُمیدواروں کی پشت پناہی کرکے انتخابات میں داخل اندازی کر رہا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکمت عملی کی بنیاد پر ووٹوں کو اکھٹا کرکے کچھ انتہائی سخت گیر رہنماؤں کو ماہرین کی کونسل اور پارلیمان میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اِس بیان کی وجہ سے صدر سمیت کئی حکومتی سیاستدان میں غم و غصہ پھیل گیا تھا، صدر نے ’انگریزوں کی فہرست‘ کو ایرانی عوام کے فہم کی توہین قرار دیا تھا۔
غیر متوقع طور پر گذشتہ پانچ سالوں سے نظر بند حزب اختلاف کے رہنماؤں میرحسین موسوی اور مہدی کروبی کی جانب سے اہم اور نئی حکمت عملی سامنے آئی۔
اُنھوں نے اپنے حمایتیوں سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے حکام سے اپنے گھر پر بیلٹ باکس لانے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ یہ بالکل غیر متوقع اور کافی جرات مندانہ قدم تھا۔ اِنھیں سنہ 2009 کے متنازع صدراتی انتخابات میں حکام پر دھاندلی کا الزام لگانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اِن انتخابات کے نتیجے میں ملک بھر میں پُر تشدد مظاہرے ہوئے تھے اور دس افراد مارے گئے۔
آئندہ کیا؟
اگرچہ اصلاح پسندوں اور حکومتی نواز جماعتوں نے دونوں انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی ہے، لیکن سخت گیر اور قدامت پسند عناصر کے حوالے سے کچھ لکھنا قبل از وقت ہوگا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کے دیگر قصبوں اور یہاں تک کے چند بڑے شہروں میں بھی اِن کی کارکردگی اتنی بُری نہیں تھی۔ لیکن یہ ضرور یاد رہنا چاہیے کہ نگران کونسل کی جانب سے منظوری کے بعد ہی انتخابی نتائج کو درست سمجھا جائے گا۔
اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ نگران کونسل، عدلیہ، ریاستی ٹی وی اور فوج سمیت غیر منتخب اداروں پر اب بھی اِن کا قبضہ ہے۔ فوج کسی بھی منتخب ادارے کو جواب دہ نہیں ہے اور یہ سیاست میں دخل اندازی اور قدامت پسندوں کی حمایت کرنے سے بالکل نہیں ڈرتے ہیں۔
اگر 76 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نئی پارلیمان کے آٹھ سالہ دور اقتدار کےدوران انتقال کرجاتے ہیں تو یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ماہرین کی کونسل میں چند قدامت پسندوں کے نہ جانے سے نئے رہنما کے انتخاب پر کوئی اثر پڑے گا۔
لیکن اِن انتخابات کے نتائج سے ایران کی سیاست میں تبدیلی آئی ہے۔ صدر روحانی کی اصلاح پسند حکومت، غیر منتخب اداروں کے اثر و رسوخ اور سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرنے کے حوالے سے اپنے منصوبوں پر عمل کرنے میں زیادہ پُر اعتماد ہوگی۔
اب جو کچھ ہوگا، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ یہ دونوں گروہ انتخابات میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے استعمال میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای اور جن کی وہ حمایت کرتے ہیں، اُن کے رد عمل کے آئندہ ہونے والی چیزوں پر اہم اثرات ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment