بھارتی دارالحکومت دہلی کے جنوب میں ’محبت کا مندر‘ کہے جانے والے تاج محل کی نگری آگرہ میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ ’حتمی جنگ‘ کی بات کی جا رہی تھی وہیں دہلی سے 100 کلو میٹر شمال میں ’ہندو مسلم اتحاد‘ کے نعرے سنے جا رہے تھے۔
گذشتہ روز اتوار کو دہلی کے قریب شاملی ضلعے کے بدھانہ قصبے میں مسلمانوں کے اہم رہنماؤں اور ہندوؤں کے سیکولر رہنماؤں نے ’تعمیر، تعلیم اور اتحاد‘ کانفرنس کے تحت قومی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے عزائم کا اظہار کیا۔
ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ملک کے دستور اور آئین کی حفاظت کے لیے جمیعت علمائے ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ’مسلمان برادران وطن کے درمیان جائیں اور بقائے باہمی کی تقاریب منعقد کریں، ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کو مٹانے کے لیے پیار و محبت کا پیغام بہت ضروری ہے کیونکہ 70 سال قبل ملک میں فرقہ پرستی کے عفریت نے جنم لیا تو ملک تقسیم ہو گیا۔۔۔آج پھر سے وہ جن بوتل سے باہر نکالا جا رہا ہے اور اسے بروقت بند نہیں کیا گیا تو نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ابھی بھی بھارت میں سیکولرز زندہ ہے کیونکہ گذشتہ سال دہلی کے قریب دادری میں گوشت کے شبہے میں مارے جانے شخص اخلاق کی ہلاکت کے جواب میں بہت سے ہندو دانشوروں نے مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اعزازات حکومت کو واپس لوٹا دیے تھے۔
اس موقعہ پر کانفرنس کے کنوینر مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی نے کہا کہ ’اس کانفرنس کا محرک ملک کے روز افزوں خراب ہوتے حالات ہیں۔ اس سے قبل ہندوستان کی آزادی میں علما نے بڑے کردار ادا کیے تھے اور ایک بار پھر علما سے بڑا کردار ادا کرنے کا مطالبہ ہے تاکہ نہ صرف اقلیتوں کا تحفظ ممکن ہو بلکہ ملک کی سلامتی بھی قائم رہے۔‘
ندوۃ العلما لکھنؤ کے استاد مولانا سلمان حسنی ندوی نے کہا کہ ’ملک میں ایک ہزار سال تک مسلم حمکراں رہے لیکن ان کے دور میں ایک بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا جبکہ انگریزوں کے تسلط کے بعد سے اب تک ملک میں تقریباً 25 ہزار فسادات ہو چکے ہیں۔‘
دانشور رام پنیانی نے کہا کہ مذہب کے نام پر ہندوستانی سماج کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، کبھی ’لو جہاد‘ تو کبھی ’بیف‘ اور کبھی دوسرے بہانے فضا کو مقدر کیا جار رہا ہے۔ ماؤ نواز علاقوں میں کام کرنے والے ہمانشو کمار نے کہا کہ ’جو فرقہ وارانہ فسادات میں تلوار بانٹتے رہے وہی آج اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔‘
دوسری جانب اخبار انڈین ایکپریس کے مطابق آگرہ میں فروغ انسانی وسائل کے نائب وزیر اور آگرہ کے رکن پارلیمان رام شنکر کٹھیار اور فتح پور سیکری کے بی جے پی ایم ایل اے کی موجودگی میں سنگھ پریوار کے مقریرین نے مسلمانوں کو ’راکشش‘ اور ’راون کے وارث‘ کہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف’حتمی جنگ‘ کے لیے تیار رہنے کی بات کہی۔
اخبار کے مطابق بی جے پی ایم ایل جگن پرساد گرگ نے کہا ’آپ کو گولی چلانی ہوگی، رائفل اٹھانا ہوگا، چاقو چلانا ہوگا۔ 2017 میں انتخابات ہیں، آج ہی سے اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کردیں۔‘
سنگھ پریوار کے رہنما یہ باتیں وی ایچ پی کے ایک کارکن کی ہلاکت کے سلسلے میں منعقد کی جانے والی ایک مجلس میں کہہ رہے تھے۔ ارون ماتھر نام کے شخص کو گذشتہ ہفتے مبینہ طور پر چند مسلم نوجوان نے ہلاک کر دیا تھا۔
وی ایچ پی کے جنرل سیکریٹری سوریندر جین نے انتظامیہ کو متبنہ کرتے ہوئے کہا: ’تم نے مظفرنگر کے نتائج دیکھ لیے ہیں۔ آگرہ کو مظفر نگر نہ بناؤ۔‘ خیال رہے کہ دو سال قبل مظفرنگر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے جس میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو گئے تھے۔
No comments:
Post a Comment