آزادیِ اظہار کے تحفظ کے نام پر جواہر لعل یونیورسٹی دہلی سے شروع ہونے والی طلبا تحریک کو بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کی خواہش کے برعکس بھلے جماعت الدعوۃ کے حافظ محمد سعید کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سرحد پار جے این یو کے گرفتار صدر کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کے کاز سے پاکستانی طلبا لا تعلق ہیں۔
بائیں بازو کی طلبا تنظیموں پر مشتمل ڈیموکریٹک الائنس نے اپنے کھلے خط میں نہ صرف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبا کی جانب سے اندھی قوم پرستی کی مخالفت ، تعلیمی اداروں میں سوال اٹھانے کی آزادی کی موافقت اور تعلیمی ادارے کو ایک خاص طرح کے تنگ نظر نظریے کی آماجگاہ بنانے کی مزاحمت پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے بلکہ گذشتہ ستر برس کے دوران پاکستانی تعلیمی اداروں میں سوچ کی آزادی حاصل کرنے اور مختلف آمریتوں کے خلاف کی جانے والی طلبا جدوجہد کا بھی حوالہ دیا ہے۔
سارک منصوبے کے تحت دہلی میں قائم ساؤتھ ایشین یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک کے طلبا اور کچھ اساتذہ نے بھی علی الاعلان جے این یو کے طلبا کی حمایت کی ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اگرچہ ہر سرکردہ سیاسی جماعت سے نتھی طلبا تنظیمیں فعال ہیں ۔مگر کیمپس میں باضابطہ طلبا سیاست اور یونین سازی پر جنرل ضیا الحق کے مارشل لائی دور میں انیس سو چوراسی سے جو پابندیاں عائد تھیں انہیں ضیا کے بعد آنے والی ہر حکومت نے ’ ابا کی میراث‘سمجھ کر آج بھی سینے سے لگا رکھا ہے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ گذشتہ بتیس برس کے دوران جس ریاست نے طلبا سیاست کو لگام دے رکھی ہے اسی ریاست نے اس عرصے کے دوران مسلح جہادی اور فرقہ وارانہ سیاست کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے پھلنے پھولنے کے لیے سازگار ماحول بھی فراہم کیا۔
چنانچہ ڈائیلاگ اور رواداری کی جگہ طلبا تنظیموں نے بھی عدم برداشت اور تشدد کی زبان اپنا لی ہے۔عین ممکن ہے کہ صحت مند طلبا سیاست کی جڑیں نہ کاٹی جاتیں تو متشدد گروہوں کو مایوسی سے بھرپور جوان خام مال شاید اتنی مقدار میں دستیاب نہ ہوتا۔
خود طلبا تنظیموں میں بھی اپنا سیاسی حق واپس لینے کی وہ خواہش دکھائی نہیں دیتی جو کسی نتیجہ خیز تحریک کی شکل اختیار کرسکے۔لہذا سرحد پار چلنے والی طلبا تحریک میں ماضی کے کئی سابق پاکستانی نوجوانوں کو اپنی جدوجہد کا عکس دکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ خود پر عاشق اور خاص طرح کے موضوعاتی کنوئیں میں بند پاکستانی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں جے این یو کی تحریک کو بہت زیادہ کوریج نہیں مل پائی ۔
تاہم پاکستان کے انگریزی پریس میں کچھ مضامین کے ذریعے بھارت میں آزادیِ اظہار کی جنگ اور پاکستان میں اس طرح کی جدوجہد اور خواہشات کا موازنہ ضرور کیا گیا ہے۔دو تین ٹی وی ٹاک شوز کا کم ازکم ایک حصہ بھارتی طلبا میں بڑھتی بے چینی اور انتہائی دائیں بازو کی ہندوتوا سوچ مسلط کرنے کی کوششوں پر بحث بھی نظر آئی۔
کسی کو امید نہیں کہ بدلے ہوئے غیر نظریاتی مادہ پرست ماحول میں جے این یو کی طلبا تحریک فرسودہ اقدار سے بغاوت کرنے والی انیس سو اڑسٹھ کی جنگ دشمن امن نواز عالمی طلبا تحریک کی شکل اختیار کرے گی اور دلی آج کے طلبا کا پیرس بن جائے گا ۔مگر اتنے برس بعد اگر جے این یو کے نوجوان اور ہمسایہ ممالک کی طلبا سیاست کے تنِ مردہ میں سوال کرنے کی آزادی کے تعلق سے ایک مشترکہ کاز کی زرا بھی بجلی دوڑانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بذاتِ خود ایک اہم بات ہے ۔
No comments:
Post a Comment