Saturday, June 20, 2015

داعش' کے خلاف جاری آپریشن میں عراقی سیکیورٹی فورسز کا الانبار، صلاح الدین اور کرکوک میں 124 داعشی جنگجوئوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

   
تازہ ترین اضافہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عراق کے شمالی اضلاع میں  'داعش' کے خلاف جاری آپریشن میں عراقی سیکیورٹی فورسز نے الانبار، صلاح الدین اور کرکوک گورنریوں میں پیش قدمی کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک سو چوبیس داعشی جنگجوئوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق صوبہ دیالی کے گورنر نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ پچھلے تین ماہ میں 22 مختلف دیہات سے نقل مکانی کرنے والے سیکڑوں خاندان گھروں کو واپس آگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ واپس آنے والے شہری صلاح الدین گورنری اور دیالی کی سرحد پر پھیلے علاقوں میں موجود اپنے گھروں کو لوٹے ہیں۔

دوسری جانب عالمی اتحادی فوج کے جنگی طیاروں نے جمعہ کے روز البغدادی، الرمادی، فلوجہ اور تلعفر گورنریوں میں سولہ فضائی حملے کیے ہیں جن میں متعدد جنگجو ہلاک اور ان کے ٹھکانے تباہ کیے گئے۔

انبار میں داعش کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی پیش قدمی کے دعوے کے باوجود عراق کے نائب صدر ایاد علاوی نے خبردار کیا ہے کہ مفتوحہ علاقوں میں سیاسی اور عسکری بالادستی کے وجود کا نہ ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ انہوں نے داعش کے خلاف جاری کارروائی میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ عراقی فورسز کے داعش کے خلاف آپریشن اور عالمی اتحادی فوج کے درمیان کسی قسم کا رابطہ نہیں ہے۔ حالانکہ مثبت نتائج کے حصول کے لیے عراقی فوج اور اتحادی ممالک کے درمیان مکمل رابطہ اور ہم آہنگی ہونی چاہیے۔

خیال رہے کہ عراقی سیکیورٹی فورسز نے پچھلے ماہ صوبہ دیالی کے الانبار شہر میں داعش کے خلاف فوجی آپریشن کا اغاز کیا تھا تاہم داعش کے مسلسل حملوں کے باعث عراقی فوج کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام میں کرد فورسز نے سخت گیر جنگجو گروپ دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) کے صدر مقام الرقہ کی جانب سرحدی قصبے تل ابیض سے جانے والے ایک اہم سپلائی روٹ کو منقطع کردیا ہے۔

کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس ( وائی پی جی) کے ایک کمانڈر حسین خوجر نے ٹیلی فون کے ذریعے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ''ان کی فورسز نے شام اور ترکی کی سرحد پر واقع قصبے تل ابیض سے الرقہ کی جانب جانے والی شاہراہ پر قبضہ کر لیا ہے اور تل ابیض کا مکمل طور پر محاصرہ کر لیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب داعش یہاں سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے ہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ کرد جنگجوؤں کو شامی باغی گروپوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ تزویراتی اہمیت کے حامل اس قصبے کی جانب مشرق اور مغرب سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

وائی پی جی کے ساتھ مل کر لڑنے والے ایک باغی گروپ برکان الفرات کے ترجمان شرفان درویش نے بھی یہ اطلاع دی ہے کہ داعش مخالف اتحاد کے جنگجو قصبے کی جانب دو محاذوں سے پیش قدمی کررہے ہیں۔ان کی داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ شدید لڑائی ہوئی ہے اورسوموار کو اس گروپ کے انیس جنگجو مارے گئے ہیں۔ داعش کے خلاف اس لڑائی میں کرد فورسز کو امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔تل ابیض میں شدید لڑائی کے پیش نظر آبادی کا بڑا حصہ محفوظ مقامات کی جانب چلا گیا ہے۔

..............
...............
امریکہ نے گزشتہ سال اگست میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف عراق اور شام میں شروع کی گئی کارروائیوں میں اب تک دو ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں اور اس کا خرچ روزانہ اوسطاً نوے لاکھ ڈالر تک ہو گیا ہے۔

یہ بات پینٹاگان کی طرف سے اخراجات کی جاری کی گئی تفصیلات میں بتائی گئی۔

محکمہ دفاع کے ان اعداد و شمار کے مطابق اس رقم کا دو تہائی یعنی تقریباً ایک ارب 80 کروڑ ڈالر فضائی کارروائیوں پر صرف ہوا جب کہ دیگر ذرائع سے ہونے والی لڑائی میں روزانہ پچاس لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔

پہلی مرتبہ مخصوص خفیہ کارروائیوں پر اٹھنے والی لاگت کا تذکرہ بھی کیا گیا اور گزشتہ اگست سے اس مد میں دو کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔

یہ اعداد و شمار ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب کانگریس نے بحث کے بعد اس مسودہ قانون کو مسترد کر دیا، جس کے تحت لڑاکا کارروائیوں پر اخراجات قانون سازوں کی طرف سے ایک نئی قرارداد کی منظوری کے بعد ہی کیے جا سکنے تھے۔فوج کی کارروائیوں میں اخراجات گزشہ اگست میں عراق اور پھر اس کے ایک ماہ بعد شام شروع کیے گئے فضائی حملوں سے بڑھ گئے ہیں۔ پینٹاگان کی جاری کی گئی خرچ کی تفصیلات میں 43 کروڑ 80 لاکھ ڈالر بحریہ کے ہیں جس میں جنگی اور دیگر جہازوں کے اخراجات ہیں، فوج پر 27 کروڑ چالیس لاکھ ڈالر خرچ ہوئے جو کہ عراق میں زمینی افواج کو تربیت فراہم کر رہی ہے۔

دو کروڑ دس لاکھ ڈالر کی رقم انٹیلی جنس اور نگرانی کی سرگرمیوں پر صرف ہوئی۔

شدت پسند گروپ داعش نے گزشتہ سال عراق اور شام کے مختلف حصوں پر قبضہ کر کے وہاں خلاف کا اعلان کر رکھا ہے اور یہ گروپ بڑے پیمانے پر قتل و غارت میں ملوث ہے۔

صدر براک اوباما داعش کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment