Saturday, June 20, 2015

لو وہ بھی کہہ رہے ہیں۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی

 )
از۔۔۔ شمس جیلانی
    آج کل محاوروں کارواج آہستہ ، آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے، یہ بھی شعر کی طرح ذریعہ تھا چند لفظوں میں بہت کچھ کہدینے کا مثلا “ چھاج بولے تو بولے چھلنی بھی بولی جس میں بہتر سوچھید “ یہ اس موقعہ بولا جاتا تھا جب کوئی انتہائی داغدار کردار رکھتے ہوئے اپنی پارسائی بیان کرے؟ آجکل دو ایسے ہی جڑواں بھائیوں کی برہمی کی خبریں آرہی تھیں کبھی وہ ایک کو بھی وہ ایک الزام دیتے کبھی دوسرے کو کبھی آپس میں مل جاتے تو کبھی روٹھ جاتے کل یک پی ٹی وی چلتے دیکھی کہ دونوں بھائیوں فون پر رابطہ کیا کہ سر زمین رہنے والے ایک دوسرے ساتھ مرنا اور جینا چاہیئے بڑا اچھا جذبہ ہے مگر مسلمانوں کو نہ جانے کیوں اس میں کانٹے نظر آتے ہیں شاید اسکی قومی وجہ یہ رہی ہو کہ قومی شاعر علامہ اقبال (رح) کہہ گئے ہیں “ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے “ یا پھر وجہ یہ ہو کہ  قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ صرف بھلائی میں ایک دوسرے کی مدد کرو برائی میں نہیں“ اس لیے ہر مسلمان کے لیے مشکل ہے کہ وہ دین بچائے یا زمینی اور خاندانی رشتوں کا خیال کرے؟ 
    بھانت کی خبریں آرہی ہیں، دیکھئے کل کیا ہو، ہم کبھی فوج کے ثنا خواں نہیں رہے اس پر ہمارا83 سالہ ریکارڈ گواہ ہے۔ ا س لیے کہ ہمارے خیال میں فوج پاکستان کے بننے کے چند مہینوں کے بعد ہی سیاست میں اس لیے دخیل ہوگئی تھی کہ اس  وقت کے وزیر اعظم کو اپنی حکومت چلانے کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت پڑ گئی تھی، وہ دن اور آج کا دن فوج نے کبھی سامنے آکر حکومت کی کبھی پیچھے رہ کر حکومت چلائی ؟ لیکن اس میں بھی اسکی غلطی نہ تھی غلطی ان سیاست دانوں کی تھی جنہوں نے اسے بیساکھی بنا یا اگر وہ بیساکھی نہ بناتے تو سیاستداں اپنا  کام کرتےاور وہ اپنا کام کر تے جیسا کہ جمہوریت ہوتا ہے؟ چونکہ اچھے برے سبھی میں ہوتے ہیں لہذا کبھی کبھی اچھے جنرل آئے کبھی برے جنرل آئے ؟ جب اچھے جنرل آئے حالات اچھے ہوگئے جب برے جنرل آئے تو حالات خراب سے خراب تر ہو گئے۔ یہ مختر سی ہماری داستان ہے؟
     جیسے کہ ہم نے تصوف کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایک مرید نے اپنے پیر سے پوچھا کہ آجکل دہلی کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں؟ تو انہوں فرمایا کہ قطبِ دوراں نرم خو ہیں ہے؟ کیونکہ اہل ِ تصوف کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا وی نظام کے متوازی ایک روحانی نظام بھی قائم ہے ؟ اور قطبِ وقت کی افتادِ طبع بھی بہت کچھ نظام دنیا کو متاثر کرتی ہے؟ مرید نے کہا کہ حضرت میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آجکل کے قطب کون ہیں اور کیسے ہیں ؟تو انہوں نے بتایا کہ دہلی کی جامع مسجد چلے جاؤ وہاں سیڑھیو ں پر ایک صاحب بیٹھے خر بوزے فروخت کر رہے ہو نگے جاکر دیکھ لو! وہ ان کے پاس پہونچے اور ایک خربوزہ خریدا کاٹ کر چکھا اوریہ کہہ پھینک دیا کہ “پھینکا “ ہے اس کے بدلے میں دوسرا مانگا اور وہ انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے پیش کردیا کہ “ کوئی بات نہیں ہے بیٹا!دوسرا لیلو ؟ کچھ عرصے کے بعد دہلی کے حالت سدھرنے لگے تو اسی مرید نے پوچھا کہ ا ب تو حالات بہتر ہو رہے ہیں وجہ کیا ہے؟ انہوں جواب دیا کہ اب قطب صاحب تبدیل ہوگئے وہ پردہ فرما گئے اور ان کی جگہ نئے قطب نے لے لی ہے؟ انہوں نے انہیں دیکھنے کی بھی خواہش ظاہر کی تو پیر صاحب نے پھر فرمایا کہ جامع مسجد چلے جاؤ وہاں ایک صاحب کھڑے ہوئے مشک اٹھا ئے پانی پلا رہے ہونگے وہ ایک پیسہ لیتے ہیں اور ایک کٹورا پانی کا دیتے ہیں؟ انہوں نے جاکر ایک پیسہ پیش کیا اور پانی لے لیا پھر یہ کہہ کر سیڑھیوں پر پھینک دیا کہ اس میں کوڑا پڑا ہوا تھا؟ لہذا دوسرا دیجئے! انہوں نے کہا پیسہ نکالو تب پانی ملے گا؟ یہ اکڑ گئے ، جواب میں وہ بھی گرم ہوگئے کہ نکال پیسہ ورنہ یہ کٹورے سر پر ماروں گا کہ “ اب خربوزے والا کازمانہ نہیں ہے“ وہ  جب یہ فرق دیکھ چکے تو  پیاسے ہی واپس چلے آئے اور اپنے پیر صاحب کو جو کچھ دیکھا تھا اس کی رپورٹ پیش کی؟
 اب نہ تو وہ پیر ہیں جو قطبوں کو پہچانتے ہوں اور نہ وہ مرید ہیں کہ دیکھنے پر ضد کرتے ہوں، آج کے پیر تو اپنے سالانہ نذرانے سے غرض رکھتے ہیں جبکہ اعمالوں سے نہیں ، اور مرید حفظ ماتقدم یعنی انشورنس کے طور مریدی اختیار کرتا ہے کہ اگر کہیں پھنس جا ئے؟ تو جائے اور سائیں کی زیارت کرے اور پیر چھوئے، آنے کا مدعا بیان کرکے چٹھی لے لے یا بہت معاملہ زیادہ بڑھ گیا ہو توفون کال سے مسئلہ حل کروالے؟ پہلے لوگ عاقبت بنانے کے لیے مرید بنتے تھے اور دنیا اب کمانے کے لیے ؟
 لہذا یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ کراچی کا قطب کون ہے آیا وہ پردہ فرما گئے یا اللہ تعالیٰ کو کراچی والو ں بلکہ پاکستان والوں کی کوئی نیکی پسند آگئی؟ بہر حال لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ اچھے افسروں کی ایک تثلیث آگئی ہے ۔ جس کی وجہ سے وہاں کے حالات بتدریج بہتر ہورہے ہیں ؟جس شہر  کےبارے میں عام خیال  یہ تھا کہ یہاں اب کبھی امن قائم نہیں ہو گا؟ وہ شہر امن کی طرف جا رہا ہے؟ پہلے والوں نے جب بھی یہ کوشش کی تو پہلے جڑ پر ہاتھ ڈالا، مگر اس مرتبہ آفیسر تجربہ کار تھے، انہو ں نے جڑوں کے بجا ئے شاخوں کو ٹٹولنا شروع کیا ؟ جڑوں نے شروع میں تو کچھ اس کو اہمیت نہیں کہ شطرنج کے کھیل میں اگر بادشاہ کو شہ پڑ رہی ہو تو پیادوں کا پٹنا تو عام بات ہے بڑے سے بڑا مہرہ پٹوا کر شاطر بادشاہ کو بچا لیتے ہیں ۔ اب ان کے ہاتھ ان معلومات کی بنا پر جو قربانی کے بکروں یعنی شاخوں سے حاصل ہو ئیں وہ آگے بڑھے پھر ان کے ہاتھ شاخوں، تنوں اور پھر ڈالو ں سے ہوتے ہوئے “ سائیوں “ کی گر دن تک پہونچ گئے تو سائیں چیخ اٹھے ، جس طرح ڈوبتا ہوا تنکے کا سہارا لیتا ہے پہلے ایک برسا جب اسکی باری تھی، اب دوسرا بھی افسروں پر برس پڑا؟ اس پرتالیا ں بہت بجیں جس طرح شاعر مشاعرہ لوٹ لیتا ہے انہوں نے بھی جلسہ نما پریس کانفرنس لوٹ لی؟ نشہ جب اترا جب اس کی کے نتائج سخت تنقید کی شکل میں سامنے آئے کہنے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ اب وہ دور نہیں رہا جبکہ فوجی شہر میںوردی اتار کر چلتے تھے اب اچھے جنرل کا دور ہے اور پوری قوم ان کی طرف دیکھ رہی اور اس تھوڑے؟ عرصے فوج نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں اب وردی کا وقار دبارہ بہال ہو گیا ہے،جبکہ جمہوریت  اپنی کرتوتوں  کی وجہ سےاپنا وقار بری طرح کھو بیٹھی ہے لہذا اچھے کو اچھانہ کہنا بھی ظلم ہے جس طرح کسی ظالم کو اچھا کہنا ؟ بہت پرانا شعر ہے کہ “ بشر رازِ دلی کہہ کر ذلیل و خوار ہوتا ہے   نکل جاتی ہے جب خوشبو تو گل بے کار ہوتا ہے “ بات زور ِ خطابت کی بھی نہیں کہی جا سکتی کہ کہنے والا ساتھ میں ہنستے بھی جارہا تھے۔ اب اس کے حواری اس کی تفہیم تلاش کر رہے ہیں جس طرح دوسرے کے کہے کی تفہیم آئے دن ہوتی رہتی ہے؟ یہاں بھی اس پر بحث ہورہی ہے کہ کہنے والے کا یہ مطلب یہ نہیں تھا، وہ تھا؟ سائیں نے سنا ہے ان بھائی سے فون پر رابطہ بھی کیا ہے کہ وہ مزید گر تفہیم کے سکھادیں؟ کیونکہ دونوں کے درمیان انگلیڈ دستور کی طرح کچھ حصہ بغیر لکھا بھی ہے؟ جبکہ اراکینِ جماعت میں سے کچھ نے تو جب پارٹی نے سائیں کے بیان کی تو ثیق چاہی موقعہ تو اپنے عہدوں سے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دیدیا ۔ کہ چھوٹے سائیں کے لیے راستہ صاف ہو جائے اور وہ جس کو چاہیں ان کی جگہ چن لیں؟ حالانکہ کے وہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے، بڑے کے بجائے چھوٹے بنا دیے گئے تھے کہ ابھی کم سن ہو رہنے دو گر سیکھو سیاست کہ ؟
 جبکہ پارٹی میں سے ایک صاحب جو بہت ہی معقول سمجھے جاتے تھے انہوں نے غالبا ً خالی سیٹ پر جمپ کر نے کے لیے ۔ بیان کی تفہیم تبدیل کرکے دور کی کوڑی لا نے کی کوشش کی ہے کہ اس سے یہ مطلب کب نکلتا ہے جو نکالا جا رہا ہے ؟کیوںکہ انہوں نے تو اسی تقریر میں اسی ادارے کی تعریف بھی کی ہے؟ شاید ان کے خیال میں اگر تعریف اور توہین ساتھ ساتھ کر نے سےصرف بھلائی لکھی جانا چاہیے جس طرح، نیکی کرنے سے  گناہ دھل جاتے ہیں؟
 جب کہ یہ انسانی پر ہوس کھوپڑی عجیب چیز ہے کہ کبھی بھر تی نہیں ہے؟ اللہ کہاں سے کہا پہونچا دیتا ہے “ مگر حل من مزید “ کا نعرہ یہاں بھی ختم نہیں ہو تا جو وہاں دوزخ کے بارے میں ہے کہ قیامت کے دن وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے یہ ہی کہتی رہے گی حل من مزید یعنی کچھ اور گناہ گار بچے ہیں “ میرا پیٹ  ابھی خالی ہے؟ اپنی زندگی میں ہم نے ایسی صرف ایک ہی مثال دیکھی ہے  جو یہاں گیا ہو، مگر وہ بیچارہ ڈپٹی کمشنر تھا وہ بھی ایک ضلع کا اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق رشوت قبول کرتا اس نے ہر ٹیبل کو ٹھیکے پر دے رکھی ، ٹیبل تو ہم نے برائے محاورہ استعمال کی ہے؟ اس نے، پگڑی اور بیلٹ تک ٹھیکے پر دے رکھی تھی وہ اپنے نائک سے پیٹی کے عیوض جس کی بنا پر وہ پٹے والا کہلاتا تھا؟ دس روپیہ یومیہ وصول کرتا تھا؟ ہم پھر پران ییادوں میں کھوگئے یہ وہ دور تھا جب ایسی حرکتیں معیوب سمجھی جاتی تھیں اب تو کثرت استعمال کی وجہ سے کوئی حرکت، حرکت ِمعیوب،  نہیں رہی؟
 کہتے ہیں کہ جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ رحم کھاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہر یا ملک جہاں امن ناپید ہو، وہ خود بخود واپس آجاتی ہے ہمارے دیکھتے دیکھتے حال کی دو تازہ مثالں ہمارے سامنے ہیں ایک ملک میں تبدیلی جس کانام کو “لمبیا “ جو برائیوں کے لیے مشہور تھا ۔دوسرا ایک شہرمیں امن کیواپسی کہ 88 میں نیویارک اپنی بد امنی کے لیے دنیا بھر میں مشہور تھا ، لیکن اس کی سرشت ایک مئیر نے آکر بدل دی اور اب وہی شہر جہاں لوگ سڑک پر چل پھر نہیں سکتے تھے ،وہ پر امن شہروں میں شمار ہونے لگا ہے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تثلیث کو سب کی گوشمالی کے لیے مبعوث کیا ہو ،خدا کرے کہ ہمارا گمان صحیح ہو اور ہم  پر امن پاکستان دیکھ سکیں ؟ اسے اپنے سامنے بدلتا ہوا دیکھ لیں۔ اور اللہ ہماری یہ آخری خواہش بھی پوری کردے؟ (آمین)

 

No comments:

Post a Comment