Sunday, June 21, 2015

عام انتخابات کے بعد الیکشن ٹریبونلز میں 26 کیسز ابھی بھی زیرالتو

 
 عام انتخابات کے بعد الیکشن ٹریبونلز میں 26 کیسز ابھی بھی زیرالتواء ہیں جن فیصلے اصولاً چار ماہ کے اندر آجانے چاہیے تھے۔

ان ٹریبونلز کو تین جون 2013 کو تشکیل دیا گیا تھا جن میں زیریں عدلیہ کے ججز تعینات ہیں۔

ان ٹریبونلز کو اس امید کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا کہ عدلیہ کے کاموں سے آزاد یہ جج چار ماہ کے اندر فیصلے کرسکیں گے۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیصلوں پر ڈیڈلائن مقرر کی گئی تھی۔

تاہم اہداف حاصل نہ کیا جاسکے اور ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے تقرر کردہ ٹریبونلز کو توسیع ملتی رہی۔

آخری توسیع کی مدت 30 جون کو ختم ہوجائے گی جس کے الیکشن کمیشن کو انہیں ایک اور توسیع دینی پڑے گی۔

2008 کے انتخابات کے مقابلے میں 2013 کے الیکشنز کے بعد زیادہ درخواستیں جمع کروائی گئی تاہم حیران کن طور پر ٹریبونلز کی تعداد کم کردی گئی۔

2008 کے الیکشنز کے بعد 31 ٹریبونلز قائم کیے گئے تھے جبکہ پیٹیشنز کی تعداد 272 تھی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد درخواستوں کی تعداد 411 تھی جبکہ ٹریبونلز صرف 14 قائم کیے گئے۔

ایک موقع پر ٹریبونلز کی تعداد کو دوگنا کرنے کی تجویز دی گئی تاہم اسے منظور نہیں کیا گیا۔

فافن کی ایک رپورٹ کے مطابق مئی 2015 میں ٹریبونلز نے آٹھ کیسز پر فیصلہ سنایا جس کے بعد فیصلہ کیے گئے کیسز کی تعداد 385 ہوگئی۔ ان میں سے 359 کیسز پر ٹریبونلز نے فیصلہ سنادیا ہے جبکہ 26 الیکشن کمیشن نے خارج کردیے ہیں۔

زیادہ تر درخواستیں ہارنے والے امیدواروں نے درج کروائیں تاہم تین ووٹرز نے بھی درج کروائیں۔

آزاد امیدواروں نے 99 جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدواروں نے 66 درخواستیں جمع کروائیں جن میں 12 پاکستان تحریک انصاف اور 14 پاکستان پیپلز پارٹی کے جیتنے والے امیدواروں کے خلاف جمع کروائی گئیں۔

تحریک انصاف نے 58 پیٹیشنز جمع کروائیں جن میں 43 ن لیگ کے فاتح امیدوار کے خلاف درج کروائی گئیں جبکہ ایک پی پی پی کے بھی خلاف جمع کروائی گئی۔

پی پی پی نے 50 درخواستیں جمع کروائیں جن میں 19 ن لیگ اور ایک پی ٹی آئی کے امیدوار کے خلاف جمع کروائی گئیں۔

No comments:

Post a Comment