Saturday, June 20, 2015

جنیوا میں یمن کے متحارب فریقوں کے درمیان اقوام متحدہ کی ثالثی اور نگرانی میں امن مذاکرات کسی سمجھوتے کے بغیر ختم ہوگئے

 )

یمن تازہ ترین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنیوا میں یمن کے متحارب فریقوں کے درمیان اقوام متحدہ کی ثالثی اور نگرانی میں امن مذاکرات کسی سمجھوتے کے بغیر ختم ہوگئے ہیں۔

یمنی وزیرخارجہ ریاض یاسین نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق ریاض یاسین نے کہا ہے کہ سوئس شہر میں مذاکرات کے دوسرے دور سے متعلق بھی کوئی سمجھوتا نہیں ہوا ہے۔

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد نے جنیوا میں حوثیوں کے نمائندوں ،سابق صدر علی عبداللہ صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس اور سعودی عرب میں جلا وطن صدر عبد ربہ منصور ہادی کے اتحادیوں کے ساتھ باری باری بات چیت کی ہے تاکہ انھیں ملک میں جاری خونریزی کو رکوانے کے لیے کسی سمجھوتے پر آمادہ کیا جاسکے۔

ان متحارب فریقوں نے جمعہ کو بھی مذاکرات کے لیے ایک ہی میز پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا اور انھوں نے کسی قسم کی مفاہمت کا بھی کوئی اشارہ نہیں دیا تھا۔

سابق صدر علی صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس کے وفد کے رکن یحییٰ ضوائد نے کہا کہ ''ہم آج کی ملاقاتوں کے بارے میں پُرامید تھے اور ہم نے اقوام متحدہ کی تجاویز کو سنا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ جو کچھ تجویز کررہے ہیں،وہ اس معیار کا نہیں ہے جس کی ہم توقع کررہے تھے''۔

اقوام متحدہ کے ترجمان احمد فوزی نے قبل ازیں جنیوا میں مذاکرات میں توسیع کی اطلاعات کی بھی تردید کی تھی۔انھوں نے کہا کہ جلاوطن حکومت کا وفد ہفتے کو جنیوا سے روانہ ہونے والا ہے اور حوثی وفد اتوار کو روانہ ہوجائے گا۔اس سے پہلے کے وقت تک ہی بات چیت میں توسیع کی جاسکتی تھی۔

یمن کے متحارب فریقوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ان مذاکرات کے دوران جنگ بندی کی ضرورت سے اتفاق کیا تھا لیکن ان کے درمیان اس کی تفصیل پر اختلافات طے نہیں ہوسکے تھے۔

حوثیوں نے مذاکرات سے قبل انسانی بنیاد پر جنگ بندی کے اعلان کے مطالبہ کیا تھا اور یمنی حکومت نے مشروط طور پر اس سے اتفاق کیا تھا۔اس نے یہ شرط عاید کی تھی کہ حوثی اور ان کے حامی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اپریل میں منظور کردہ قرارداد نمبر 2216 کی پاسداری کریں۔اس میں حوثیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ تمام علاقوں کو خالی کردیں۔
سعودی اتحادیوں کے فضائی حملے

درایں اثناء سعودی عرب کی قیادت میں لڑاکا طیاروں نے یمنی دارالحکومت صنعا میں حوثی باغیوں کی اتحادی ری پبلکن گارڈ فورسز کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔صنعا کے نواحی جنوبی علاقے کے مکینوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے ری پبلکن گارڈز کے السواد کیمپ پر تین فضائی حملوں کی آوازیں سنی ہیں۔

اتحادی طیاروں نے صنعا سے جنوب مشرق میں واقع علاقے خولان پر تین فضائی حملے کیے ہیں اور صوبہ الجوف کے علاقے الہزم میں حوثیوں کی اتحادی ایک سو پندرھویں انفینٹری بریگیڈ کے کیمپ پر چھے حملے کیے ہیں۔جنوبی شہر عدن میں بھی حوثی کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے۔

ان علاقوں کے مکینوں نے فضائی حملوں میں ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں دی ہے لیکن حوثیوں کا کہنا ہے کہ شمالی صوبے صعدہ کے علاقے رازح میں فضائی حملوں میں نو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
..............
.............
العربیہ' نیوز چینل نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ نے جنیوا میں یمن کی جلاوطن حکومت اور  یمنی ملیشیا کے نمائندوں کے درمیان معطل شدہ مذاکرات جمعہ تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مذاکرات میں شامل فریق ایک دوسرے پر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ مذاکرات کی مدت میں توسیع کا فیصلہ ابتدائی طور پر مخصوص 48 گھنٹوں کا وقت ختم ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد سامنے آیا۔

ذرائع کے مطابق یمنی ملیشیا کے وفد نے سویئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات میں فضائی حملے محدود کرنے والی جنگ بندی کی بات تو کی تاہم انہوں نے زمین پر جاری مخاصمت روکنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس تجویز کو یمن کی آئینی حکومت نے مسترد کرتے ہوئے مکمل فائر بندی پر زور دیا۔ یمن کی متحارب جماعتوں کا فائر بندی پر تو اتفاق ہے لیکن اس کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔

جنیوا سے العربیہ کے نامہ نگار نے اپنے مراسلے میں بتایا کہ حوثیوں نے مذاکرات سے پہلے انسانی بنیادوں پر فائر بندی کی درخواست کی تھی۔ یمنی حکومت نے اس شرط پر یہ مطالبہ ماننے کا عندیہ دیا تھا کہ حوثی اور ان کے حامی اپریل میں اقوام متحدہ میں منظور کی جانے والی قرارداد 2216 کا پاس کریں گے۔ سیکیورٹی کونسل کی اس قرارداد کے بموجب حوثی شہروں سے انخلا اور لوٹا گیا سرکاری اسلحہ کو واپس کرنے کے پابند ہیں۔

گذشتہ پیر کو یو این سیکرٹری جنرل بین کی مون نے جنیوا مذاکرات کا افتتاح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک کے آغاز پر یمن میں انسانی بنیادوں پر جنگ بند کی جائے کیونکہ یہ خطہ پہلے ہی غربت اور بے روزگاری کے باعث تباہی کا شکار ہے۔

...................
...................
یمن کے متحارب فریقوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں جاری امن مذاکرات کے دوران جنگ بندی کی ضرورت سے اتفاق کیا ہے لیکن ان کے درمیان اس کی تفصیل پر ابھی تبادلہ خیال جاری ہے۔

جنیوا سے العربیہ نیوز کے نمائندے نے اطلاع دی ہے کہ حوثیوں نے مذاکرات سے قبل انسانی بنیاد پر جنگ بندی کے اعلان کے مطالبہ کیا ہے اور یمنی حکومت نے مشروط طور پر اس سے اتفاق کیا ہے اور اس نے یہ شرط عاید کی ہے کہ حوثی اور ان کے حامی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپریل میں منظور کردہ قرارداد نمبر 2216 کی پاسداری کریں۔

اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد جنیوا میں یمن کے مختلف دھڑوں کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کررہے ہیں تاکہ ان میں موجود اختلافات کی خلیج پاٹی جاسکے۔یمن کے متحارب فریق ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے سے گریزاں ہیں اور وہ مختلف ایجنڈے پیش کررہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے سوموار کو جنیوا میں یمنی فریقوں کے درمیان امن بات چیت کا افتتاح کرتے ہوئے رمضان المبارک کے آغاز سے قبل فوری طور پر دوہفتے کے لیے جنگ بندی پر زوردیا تھا تاکہ جنگ سے متاثرہ یمنیوں کو انسانی امداد بہم پہنچائی جاسکے۔انھوں نے کہا کہ ''دو روز کے بعد رمضان المبارک کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ ہم آہنگی ،امن اور مصالحت کا عرصہ ہونا چاہیے''۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کی نگرانی اور ثالثی میں اتوار کو یمن امن مذاکرات کا آغاز ہونا تھا لیکن عالمی ادارے نے اس میں ایک دن کی تاخیر کردی تھی اور حوثیوں کا وفد سوموار کو پہنچنے کے بعد ان سے مشاورتی عمل کا آغاز کیا گیا تھا۔

قبل ازیں یمن کے سعودی عرب میں جلاوطن صدر عبد ربہ منصور ہادی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات میں سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد پر ہی تبادلہ خیال کرے گی۔اس قرارداد میں حوثی باغیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں کو خالی کردیں۔

سعودی عرب کے شہر جدہ میں منگل کو اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) کے منعقدہ غیرمعمولی اجلاس کے موقع پر انھوں نے کہا کہ ''جنیوا میں ہمارا وفد قرارداد 2216 کے اطلاق سے متعلق شرائط ہی پر تبادلہ خیال کرے گا''۔

اس قرارداد میں حوثیوں سے زیر قبضہ علاقوں کو خالی کرنے کے علاوہ سلامتی کونسل نے صدر منصور ہادی کی حکومت کو قانونی اور یمنی عوام کی نمائندہ تسلیم کیا تھا اور اس نے حوثیوں سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ یمنی فوج سے چھینے گئے ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائیں۔ کونسل نے حوثیوں پر اسلحے کے حصول کے علاوہ مختلف پابندیاں عاید کردی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جنیوا مذاکرات میں شرکت کے لیے آئے حوثی وفد اور علی صالح کے حامیوں کو انسانی حقوق کی پامالی کی پاداش میں "عالمی اشتہاری" قرار دیا جائے

یمن میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اقوام متحدہ اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنیوا مذاکرات میں شرکت کے لیے آئے حوثی وفد اور علی صالح کے حامیوں کو انسانی حقوق کی پامالی کی پاداش میں "عالمی اشتہاری" قرار دے کر انہیں گرفتار کریں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق انسانی حقوق کی غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یمن میں سابق صدر علی صالح اور شیعہ مسلک کے حوثی باغی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔

یمن کے انسانی حقوق کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق گروپوں نے علی صالح اور حوثی گروپ کے سربراہ عبدالملک الحوثی اور ان کے معاونین کو عالمی اشتہاریوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے یمن کے علاقوں عدن، تعز، ضالع اور لحج میں حوثیوں اور علی صالح کی حامی ملیشیا کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں اور نہتے شہریوں کے قتل عام کے ثبوت بھی اقوام متحدہ کو ارسال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
...........
.........
یمن کی آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے معزول صدر علی عبداللہ صالح اورحوثیوں کے درمیان ملکی بحران حل کے لئے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے پر اختلاف ہو گیا۔

'العربیہ' ذرائع کے مطابق اسی اختلاف کے نتیجے میں باغی عبداللہ صالح اور حوثیوں کے وفد جنیوا نہیں گئے۔ انہی ذرائع کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا طیارہ صنعاء سے صالح اور حوثیوں کے وفد کے بغیر روانہ ہو گیا۔

ذرائع کے مطابق یمنی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے وفود جنیوا پہنچ گئے۔ سولہ ملکوں کے سفیر بھی یمن بحران سے متعلق مذاکرات میں شرکت کے لئے جنیوا پہنچے ہیں۔

یمن میں 'فیصلہ کن طوفان' آپریشن کے ترجمان نے ہفتے کو بتایا تھا کہ جنیوا کانفرنس میں شرکت کے لئے صنعاء سے وفود کو لیکر جانے کے لئے اقوام متحدہ کا ایک طیارہ جیبوتی سے صنعاء پہنچا ہے، جہاں مذاکرات میں شرکت کے بعد ان وفود کو 19 جون کو واپس یمن لیجایا جائے گا۔

اس سے قبل عرب اتحادی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری نے 'العربیہ ڈاٹ نیٹ' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یمن کے لئے یو این کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد الشیخ احمد نے اتحادی فوج سے درخواست کی تھی وہ یمنی سیاسی رہنماوں کو جنیوا لیجانے کے لئے خصوصی طیارہ بھجیں۔

جنرل العسیری نے بتایا کہ یو این کے خصوصی ایلچی نے یمنی سیاسی قیادت کو جنیوا لیجانے کے لئے پہلے چودہ جون کو طیارہ فراہمی کی درخواست کی تھی، تاہم مذاکرات میں شرکت کے لئے آنے والے بعض وفود کی آمد میں تاخیر پر انہیں ایک دن کے لئے موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یو این ایلچی اسماعیل ولد الشیخ احمد نے اس سے پہلے اتوار کے روز جنیوا میں سیاسی جماعتوں سے الگ الگ مذاکرات کرنے تھے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذاکرات تین دن جاری رہیں گے۔ ان میں یمنی صدر عبد ربہ منصور ھادی کے علاوہ تنازع کے دوسرے فریق بھی شرکت کریں گے۔

خلیج تعاون کونسل وزرائے خارجہ نے سعودی دارلحکومت ریاض میں گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں یمن بحران کے حل کی خاطر جنیوا میں ہونے والے مشاورت کی مکمل تائید کی۔ انہوں نے یمن بحران حل کی خاطر طے پانے والے اعلان ریاض، یو این قرارداد 2216، خلیجی منصوبہ اور جامع قومی مذاکرات کے نتائج کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ٹیگز

................
سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ کُرد جنگجوؤں نے شام کی سرحد کے قریب ترک سرحد پر داعش کے ٹھکانوں کی طرف پیش قدمی کی ہے، جہاں دونوں فریق کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔

’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے ہفتے کے روز بتایا ہے کہ شام کی کُرد  لڑاکا فورس (وائی پی جی)، جنھیں باغیوں اور اتحادی طیاروں کی مدد حاصل ہے،  شمالی شام میں صوبہٴرقعہ کے داعش کے گڑھ کے اندر پیش قدمی کی ہے، جس کا مقصد تل ابیض کے اہم سرحدی قصبے پر قبضہ کرنا ہے۔


آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ کُرد فورسز نے دولت اسلامیہ کی پشت پناہی والے سالوک کے قصبے پر قبضہ حاصل کر لیا ہے، جو علاقہ تل ابیض سے تقریباً 10 کلومیٹر دور واقع ہے۔

لڑائی کے باعث تل ابیض کے ہزاروں مکین ترکی کی جانب بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہفتے کو سینکڑوں شامی پناہ گزیں ترک سرحد کے قریب جمع ہوئے، تاکہ تشدد کی کارروائیوں سے بچ سکیں۔

شام میں کُرد افواج داعش کے خلاف اہم کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

کُرد لڑاکا فورس، جسے امریکی قیادت والے اتحاد کی جانب سے کی جانے والی فضائی کارروائی کی مدد حاصل ہے، اس سال کے اوائل میں ترکی کے قریب کوبانی کے قصبے میں رقبےکا تسلط خالی کرانے کی کوشش تیز تر ہوگئی ہے۔

سرحد کے ساتھ والے داعش کے زیرتسلط اس علاقے کو رفتہ رفتہ واپس لیا جارہا ہے۔

....................
عرب اتحادی فوج کے لڑاکا طیاروں نے ہفتے کو علی الصباح صنعاء کے علاقوں دار الرئاسہ اور جبل النھدین میں واقع حوثی اور صالح ملیشیا کے ٹھکانوں اور اسلحہ گوداموں پر بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ عینی شاہدین نے 'العربیہ' نیوز چینل کو بتایا کہ اتحادی طیاروں نے باغی قیادت کے متعدد گھروں کو بھی نشانہ بنایا۔

درایں اثنا لڑاکا طیاروں نے عدن کے علاقہ البساتین اور المنصورہ شہر کی رہائشی کالونیوں پر بھی بمباری کی جس میں مقامی صحافیوں کے مطابق متعدد افراد ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے۔

عدن کے مغربی علاقے بئر عدن میں باغیوں کی جانب سے دراندازی کی ناکام کوشش کے بعد پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آزال صوبے میں باغیوں کے خلاف سرگرم عوامی مزاحمتی کمیٹیوں نے مخالفین پر مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔ آزال صوبہ صعدہ، عمران، صنعاء اور ذمار کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقے صالح اور حوثی ملیشیا کے باغیوں کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔

جنوبی صنعاء میں جبل النھدین کے علاقے میں اسلحہ گوداموں پر یکے بعد دیگرے کئے جانے والے چار حملوں میں حوثیوں کے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

جنگی جہازوں نے جنوبی صنعا کے دار سلم علاقے میں واقع معزول صدر علی عبداللہ صالح کے بھائی علی صالح الاحمر کے گھر کو نشانہ بنایا۔ علی عبداللہ صالح کے بیٹے یحیی محمد عبداللہ صالح اور مارب کے مغربی علاقے میں حوثیوں کے ٹھکانے بھی ہفتے کے روز کا جانے والی فضائی کارروائیوں کا خصوصی ہدف بننے۔

اتحادی فوج کے فضائی حملوں ایسے وقت میں جاری ہیں کہ جب زمین پر صالح اور حوثی ملیشیا کئی علاقوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ باغی ملیشیا کے جنگجووں نے تعز کی متعدد رہائشی کالونیوں پر گولا باری کی جس کی زد میں آ کر عام شہریوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو زخمی ہوئی۔

مقامی افراد کے مطابق الروضہ، زید الموشکی، کلابہ سمیت آزادی اور جمہوری سکوائر کے اردگرد علاقے پر باغی جنگجووں نے ٹینکوں اور ھاون توپوں سے شدید گولا باری کی۔ متذکرہ کالونیوں میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔

حوثی اور علی عبداللہ صالح کے حامی جنگجووں نے غرب عدن کے شہر الشعب کی الانشاءات کالونی پر کاتیوشا راکٹ فائر کئے جن کی زد میں آ کر ایک خاتون شدید زخمی ہوئی۔ عدن کے شمالی علاقے البساتین پر حوثی ملیشیا نے شدید گولا باری جس سے عام شہریوں کی بڑی تعداد ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ادھر الضالع گورنری میں صالح اور حوثی ملیشیا کی عوامی مزاحمتی کمییٹوں سے ہونے والی لڑائی میں 20 مسلح حوثی ہلاک ہو گئے۔


.................
یمن میں اتحادی لڑاکا طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں حوثی ملیشیا کے اہم رہنما حامس النمری ہلاک ہو گئے جبکہ دوسری جانب مارب گورنری کے الجدعان محاذ پر عوامی مزاحمتی کمیٹیوں اور مزاحمت کاروں کے درمیان جھڑپوں کے دوبارہ آغاز کی اطلاعات ہیں۔ اتحادی طیاروں نے مارب کے مغربی علاقے میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر دو فضائی حملے کئے ہیں۔

ذرائع نے 'العربیہ' کو بتایا کہ ان حملوں میں علی عبداللہ صالح اور حوثی ملیشیا کے 27 جنگجو مارے جا چکے ہیں۔ تعز کے علاقے اتحادی فوجیوں کی ایک کارروائی میں حوثی ملیشیا کا اہم کمانڈر ہلاک اور دسیوں جنگجو زخمی ہوئے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ان جھڑپوں میں عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کی جانب سے لڑنے والے سات رضاکار بھی کام آئے۔

تفصیل کے مطابق عرب اتحادی فوج کے لڑاکا طیاروں نے حوثی ملیشیا اور علی عبداللہ صالح کے جنگجووں کو نشانہ بنانے کے لئے بمباری کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ یمن کے مختلف علاقوں اور محاذوں پر حوثی اور صالح ملیشیا کے جنگجووں اور عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے ارکان کے درمیان لڑائی کی اطلاعات ہیں، جن میں صالح اور حوثی ملیشیا کے متعدد جنگجووں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

عرب اتحادی فوج کے لڑاکا طیاروں نے یمن کے مختلف محاذوں پر حوثی اور صالح ملیشیا کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھے۔ اتحادی فوج نے مارب میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اتحادی فوج کے لڑاکا طیاروں نے یمن اور سعودی عرب کی سرحد پر واقع حوثیوں کے متعدد ٹھکانوں پر نیچی پروازیں کیں اور اہداف کو نشانہ بنایا۔

...............
سعودی عرب اور یمن کی سرحد پر جازان کے علاقے میں اتحادی فوج میں شامل اپاچی ہیلی کاپٹروں نے علاقے میں حوثیوں کی نقل و حرکت کو نشانہ بنایا۔ دونوں ملکوں کے سرحدی علاقے پر حوثی ملیشیا اور سعودی عرب کی مسلح فوج کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

یہ سلسلہ اتحادی فوج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد عسیری کی جانب سے سعودی عرب کی سرحد کو 'ممنوعہ علاقہ' قرار دینے کے بیان کے بعد شروع ہوا۔ بیان میں جنرل عسیری نے اعلان کیا تھا کہ یمن سے آنے والے کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے سعودی افواج مکمل طور پر تیار ہیں۔

گذشتہ روز سرحدی علاقے ظھران کے جنوب میں حوثی ملیشیا کے زیر استعمال فوجی گاڑیوں نے نقل و حرکت شروع کی تو سعودی مسلح فوج نے فوری کارروائی کر کے بڑی تعداد میں حوثیوں کا جنگی ساز و سامان تباہ کر دیا

...........
یمن کے جنوبی شہر مکلا میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں القاعدہ کے 3 مبینہ جنگجو ہلاک ہوگئے ۔

مقامی انتظامیہ نے غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ امریکا کے بغیر پائلٹ طیارے نے مکلا پورٹ کے قریب موجود 3 القائدہ جنگجوؤں پر 4 میزائل داغے، جس کے باعث وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔

ایک سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے میں القاعدہ کا ایک اہم رہنما بھی ہلاک ہوا ہے۔ القاعدہ کے جزیرہ نما عرب کے جنگجوؤں نے گذشتہ کئی ہفتوں سے ملک میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت اور حوثیوں کے درمیان جاری کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبہ حضرموت کے دارالحکومت مکلا پر قبضہ حاصل کرلیا تھا۔

امریکا کی جانب سے القاعدہ کے اس گروپ کو عالمی دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے اور ان کے جنگجوؤں کو یمن کے علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

................
یمن میں جلا وطن صدرعبد ربہ منصور ہادی کی وفادار فورسز کے ساتھ جھڑپوں اور سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے لڑاکا طیاروں کے فضائی حملوں میں اٹھارہ حوثی جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔

العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق یمن کے جنوب مغربی شہر تعز میں صدر عبد ربہ منصور ہادی کے وفادار عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے ارکان اور حوثی باغیوں کے درمیان خونریز لڑائی ہے اور اس میں آٹھ حوثی باغی ہلاک اور گیارہ زخمی ہوگئے ہیں۔

العربیہ نے یمن میں موجود اپنے نمائندے کے حوالے سے بتایا ہے کہ حوثی باغیوں کے ساتھ جھڑپوں میں عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے تین ارکان زخمی ہوئے ہیں۔

درایں اثناء یمن کے تیل کی دولت سے مالا مال صوبے مآرب میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے لڑاکا طیاروں کی بمباری سے دس حوثی باغی ہلاک ہوگئے ہیں۔

تعز میں حوثی باغیوں اور عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے ارکان کے درمیان جھڑپیں جنیوا میں آیندہ اتوار کو یمن کے متحارب فریقوں کے درمیان مذاکرات سے صرف چار روز قبل ہوئی ہیں۔صدر منصور ہادی کی حکومت اور حوثی باغیوں نے ان مذاکرات میں شرکت کا اعلان کررکھا ہے۔

جنیوا میں 14 جون کو یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے نمائندے حوثی گروپ اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کریں گے۔تاہم ان کے درمیان ان مذاکرات کے ایجنڈے کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ سعودی دارالحکومت الریاض میں مقیم یمنی صدر منصور ہادی اور وزیراعظم خالد بحاح کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد حوثی باغیوں کو زیر قبضہ علاقوں کو خالی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔توقع ہے کہ اقوام متحدہ کی ثالثی میں ان مذاکرات میں متحارب فریقوں کے درمیان لڑائی کے خاتمے ،جنگ سے متاثرہ افراد کی امداد اور ملک میں سیاسی عمل کی بحالی پر تبادلہ خیال ہو گا۔

ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے گذشتہ سال ستمبر میں صنعا پر قبضے کے بعد ملک کے منتخب صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کو چلتا کیا تھا اور جنوبی شہر عدن کی جانب بھی چڑھائی کردی تھی۔ان کے ایک منتخب حکومت کے خلاف جارحانہ اقدامات کے بعد سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے صدر منصور ہادی کی درخواست پر یمن میں حوثیوں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف 26 مارچ کو فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا۔

سعودی عرب کو یقین ہے کہ حوثی باغی اس کے علاقائی حریف ایران کے گماشتہ جنگجو گروپ کا کردار ادا کررہے ہیں اور ایران اس ملک میں بزور طاقت اپنی حمایت یافتہ حکومت بنوانا چاہتا ہے لیکن دوسری جانب یمن کے جنوبی صوبوں کی اکثریتی سنی آبادی ان خدشات کا اظہار کررہی ہے کہ ملک مکمل طور پر فرقہ وارانہ بنیاد پر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے


.....................
اتحادی طیاروں نے منگل کے روز بھی یمن کی باغی ملیشیا کے اسلحہ گودام اور فوجی ٹھکانوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا

فضائی حملوں کے ساتھ میدان جنگ میں صالح اور حوثی ملیشیا کا مقابلہ عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے جنگجو دلیری سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں حوثی ملیشیا کے اہم کمانڈر اور جنگجووں کی بڑی تعداد کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ایک طرف اتحادی عرب فوج کے فضائی حملے اور دوسری جانب مزاحمتی کمیٹیوں کے جنگجووں نے میدان جنگ میں حوثی ملیشیا اور معزول صدر علی عبداللہ صالح کے حامیوں کو ایک کے بعد دوسرا بڑا جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

اتحادی لڑاکا طیاروں نے عدن گورنری کے علاقے بئر احمد میں حوثیوں کے ایک ٹھکانے پر بم برسائے جس کے نتیجے میں انقلابیوں کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

ادھر دارلحکومت صنعاء میں اتحادی طیاروں نے یمنی وزارت دفاع کی عمارت پر تین حملے کئے۔ اس کے علاوہ اسلحہ گودام اور باغی ملیشیا کے ٹھکانوں کو بھی منگل کے روز علی الصباح کی جانے والی بمباری میں نشانہ بنایا گیا۔ سعودی عرب کی سرحد کے ساتھ واقع یمن کے ججہ شہر پر اتحادی طیاروں کی نیچی پروازیں جاری ہیں جنہوں نے علاقے میں حوثیوں کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ بمباری میں صعدہ، الجوف اور تعز کے علاقے میں بھی حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے اتحادی طیاروں نے حوثی ملیشیا کے ہمنوا جنرل علی الذفیف کے گھر پر تین فضائی حملے کئے۔ لڑاکا طیاروں نے صنعاء کی شارع الجزائر پر واقع معزول صدر علی عبداللہ صالح کے بیٹے احمد علی کے گھر کو نشانہ بنایا۔

درایں اثناء مزاحمتی کمیٹیوں کے جنگجووں نے پیر کی شب حوثی جنگجووں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں جن میں الضالع گورنری کے شمالی علاقے تلہ صلاح میں باغی ملیشیا کے اہم فیلڈ کمانڈر زکریا عسکر سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے۔

....................
...................
یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی قیادت کی جانب سے حوثی بغاوت میں یمن کے ساتھ تعاون اور مدد کے فیصلے کو جرائتمند اور دلیرانہ اقدام قرار دیا ہے۔

'العربیہ' نیوز چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے صدر ہادی کا کہنا تھا کہ ایران، خلیجی اقدام کے خلاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب یمنی قیادت نے ملک میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں میں تہران کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت جمع کر لئے تو ایران سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ یمن کو اس کے حال پر چھوڑ دے اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔

ایک سوال کے جواب میں منصور ہادی کا کہنا تھا کہ ایران، یمن کے خلاف ایک باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل پیرا ہے۔ انہوں نے ایرانی پروگرام کو یمن میں القاعدہ کی سرگرمیوں سے زیادہ خطرناک قرار دیا۔

منصور ہادی کے مطابق یمنی حکومت نے ایران کے سیکیورٹی حکام سے عمان میں ملاقات کی اور انہیں ایسے ثبوت فراہم کئے جن سے حوثی باغیوں کو تہران سے اسلحہ فراہمی کا پتا چلتا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یمن کے معزول صدر علی عبداللہ صالح نے ایرانیوں کے ساتھ کوارڈی نیشن کی خاطر بذات خود تہران کا دورہ کیا۔ صدر ہادی نے معزول یمنی صدر کو حوثی ملیشیا کا سیاسی مشیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ عبداللہ صالح اور حوثی ملیشیا کا دس نقاط پر اتفاق تھا، جن میں ایک اہم نقطہ یہ تھا کہ احمد علی عبداللہ صالح سیاسی اور عبدالمالک الحوثی دینی قائد ہوں گے تاکہ ایران کا تجربہ یمن میں منطبق کیا جا سکے۔

ریاض میں مقیم یمنی صدر کا کہنا تھا کہ یمن بحران کے حل کی خاطر جنیوا میں ہونے والے اجلاس کا مقصد اقوام متحدہ کی قرارداد 2216 پر عمل درآمد کے طریقوں کا جائزہ لینا ہے۔

العربیہ کے احمد الطویان کو صدر منصور ہادی کا دیا جانے والا انٹرویو العربیہ نیوز چینل پر نو جون بروز منگل گرینچ کے معیاری وقت چار بجے سہہ پہر نشر ہو گا۔

.............
.............
سعودی عرب کی قیادت میں وسطی صنعا میں یمنی فوج کے مرکزی ہیڈکوارٹرز پر فضائی حملے جاری ہیں، جن میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ بات حوثیوں کی تحویل میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، 'صبا 'نے بتائی ہے۔

ادارے نے خبر دی ہے کہ یہ حملہ مرکزی صنعا کے ضلع تعز پر کیا گیا، جہاں نجی گھر بھی تباہ ہوئے جن میں 100 سے زائد افراد، جن میں شہری بھی شامل ہیں، زخمی ہوئے۔

اس سے قبل، مکینوں نے بتایا تھا کہ چار دھماکے ہوئے جن کے باعث ساتھ والا احاطہ لرز اٹھا، جہاں فوجی موجود تھے، جن کا تعلق ایران کے حامی حوثی گروپ سے بتایا جاتا ہے، جن کی یمن میں اکثریت ہے، جو اجرت کے چیک وصول کرنے کے لیے ہفتے کی شام یہاں آئے تھے۔

خبر رساں ادارے نے کہا ہے کہ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق، 44 سے زائد شہری شہید ہوئے، اور 100 افراد زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

ادارے نے وزارت صحت سے وابستہ ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ امداد اور بچائو کا کام کرنے والی ٹیمیں ان چھاپوں میں تباہ ہونے والے گھروں کے ملبے سے لوگوں کو نکالنے میں مصروف رہے، جن کے بارے میں گمان ہے کہ وہ اب تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

صورت حال میں یہ کشیدگی دیکھی گئی، حالانکہ ادھر اقوام متحدہ کی حمایت سے اس ماہ جنیوا میں منعقد ہونے والے امن مذاکرات کے سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔

ریاض میں جلا وطن یمنی حکومت اور حوثیوں نے 14 جون کو ہونے والے اِن مذاکرات میں شرکت پر اتفاق کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن، اولد شیخ احمد عمان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ کے ساتھ بات چیت کے لیے عمان میں تھے، جس کا مقصد جینوا مذاکرات کی تیاری کرنا تھا۔ یہ بات عمان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی، 'او این اے' نے ہفتے کے روز بتائی ہے۔ عمان جنیوا بات چیت کے انعقاد کے سلسلے میں مصالحتی کردار ادا کرتا رہا ہے۔

چھبیس مارچ سے سعودی قیادت والی افواج حوثی گروپ پر بمباری کرتی رہی ہے، جس مہم کا مقصد صدر عبد ربو منصور ہادی کے اقتدار کی بحالی ہے۔
...............
.................
سعودی عرب کی قیادت میں یمن کی دستوری حکومت کی حمایت میں باغیوں کے خلاف سرگرم عرب اتحادی فوج نے تعز شہر کے علاقے باب المندب میں حوثی علاقوں پر نئے فضائی حملے کئے ہیں۔

اتحادی فوج نے صنعاء میں بھی معزول صدر علی عبداللہ صالح اور حوثی ملیشیا کے فوجی کیمپوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ حوثیوں کے گڑھ صعدہ میں ری پیبلیکن گارڈز کے فوجی کیمپ اور عمران گورنری میں 127 بریگیڈ کے کیمپوں پر بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ بمباری کے ساتھ حوثی باغیوں اور عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے جنگجووں کے درمیان شدید جھڑپوں کا سلسلہ شروع بھی جاری ہے.

عوامی مزاحمت کمیٹیوں میں شامل اہلکاروں کا دعوی ہے کہ انہوں نے تعز اور الضالع کے علاقوں میں باغیوں سے لڑائی کے دوران متعدد حوثیوں کو ہلاک جبکہ دسیوں کو دوسرے محاذوں پر جاری لڑائی میں گرفتار کیا ہے۔ ان میں شبوہ اور ابین کے محاذوں پر ہونے والی لڑائی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

عمران اور تعز کے درمیان باغیوں کی امداد لیکر جانے والے باغیوں کے قافلوں پر اتحادی طیاروں نے بمباری کی ہے۔ حجہ کے علاقے میں بھی ایسی ہی بمباری کی اطلاعات ہیں۔
عوامی مزاحمتی ملیشیا کے جنگجووں نے البیضاء گورنری کے رداع علاقے میں باغیوں کے ایک اسٹیشن پر حملہ کر کے حوثی ملیشیا کے دسیوں اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ حملے عوامی مزاحمت کاروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں گھات لگا کر کئے۔

الضالع کے علاقے میں دوبارہ داخلے کی کوشش میں حوثی باغی علاقے میں نئی افرادی کمک ارسال کر رہے ہیں۔ سناح کے علاقے میں عوامی مزاحمتی جنگجووں نے باغی ملیشیاوں کے 11 افراد کو حراست میں لینے کا دعوی کیا ہے جن میں سابق صدر کی حامی فوج کے دو افسر بھی شامل ہیں۔ ایسے ہی 27 افراد کو عدن میں گرفتار کئے جانے کی اطلاع ہے۔ شمال سے لیکر جنوبی یمن کے تمام محاذ گرم ہیں۔ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات سے پہلے فوجی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جسے دیکھ کر بعض حلقے حوثیوں کی بحران حل کرنے کی نیت پر شک کا اظہار کر رہے ہیں

..............
..............
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کے باغیوں اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جلا وطن حکومت کے درمیان امن بات چیت 14 جون کو جنیوا میں ہوگی۔

یہ بات ہفتے کے روز اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے بتائی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ  سکریٹری جنرل بان کی مون نے صدر عبد ربو منصور ہادی اور شیعہ حوثی باغی، جن کو دارالحکومت صنعا کا کنٹرول حاصل ہے، کے درمیان ہونے والی گفتگو کا خیر مقدم کیا ہے۔ 

گذشتہ ماہ کے آخر میں ہونے والی امن کانفرنس کا انعقاد اُس وقت معطل ہوا تھا جب حکومت اور دیگر اہم فریق نے بات چیت کی تیاری کے لیے مزید وقت مانگا تھا۔ ترجمان نے کہا کہ مسٹر بان نے دونوں فریق پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر تیار ہوں جیسا کہ گذشتہ مہینےکی گئی تھی، تاکہ تنازعے سے متاثرہ علاقے میں پھنسے ہوئے لاکھوں لوگوں کو امدادی اشیا پہنچائی جا سکیں۔ اس سے قبل، ہفتے ہی کو سعودی اہل کاروں نے کہا تھا کہ اُن کی افواج نے ایک  اسکڈ میزائل کا حملہ پسپہ کردیا ہے، جو یمن کے علاقے سے ملک کی جنوب مغربی علاقے کے اندر داغہ گیا تھا۔

سعودی خبر رساں ادارے نے بتایا تھا کہ خامص مشیت کے شہر کے قریب گرنے والے اسکڈ کو گرانے کے لیےامریکی ساختہ پیٹریاٹ میزائل چلایا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ اسکڈ یمن کی شمالی ہپاڑیوں میں واقع حوثی باغیوں کے گڑھ، سعادہ کے قریب سے داغہ گیا تھا۔

................
................
سعودی ایئر ڈیفنس نے جنوبی علاقے خمیس مشیط پر حوثی ملیشیا اور معزول صدر علی عبداللہ صالح کے حامی فوج کی جانب سے داغا جانے والے سکڈ میزائل حملہ ناکام بنا دیا ہے۔

عرب اتحادی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے حوالے سے سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ایس پی اے' کا کہنا ہے کہ ہفتے کو علی الصباح حوثی اور علی عبداللہ صالح کی حامی ملیشیا نے سعودی عرب کے جنوبی علاقے خمیس مشیط پر سکڈ میزائل سے حملہ کیا، جسے سعودی ایئر ڈیفنس نے میزائل شکن پیڑیاٹ کے ذریعے فضا ہی میں ناکارہ بنا دیا۔

" بیان کے مطابق: "حملے کے فوری بعد اتحادی فوج نے سکڈ میزائل فائر کرنے والے لانچنگ پیڈ کا یمن کے جنوبی علاقے صعدہ میں سراغ لگا اسے تباہ کر دیا۔"
...........
...........
یمن کے حوثیوں نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنیوا میں 14 جون کو ہونے والے مذاکرات میں شرکت سے اتفاق کیا ہے۔یمن کی جلاوطن حکومت نے بھی مذاکرات میں شریک ہونے کی دوبارہ تصدیق کردی ہے۔
حوثی تحریک کے سیاسی شعبے کے ایک رکن ضیف اللہ الشامی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ '' ہم نے مذاکرات میں شرکت کے لیے اقوام متحدہ کا دعوت نامہ قبول کر لیا ہے اور حوثی تحریک پیشگی شرائط کے بغیر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام یمنی ،یمنی ڈائیلاگ میں شرکت کرے گی''۔

قبل ازیں بھی جنیوا میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے مذاکرات میں حوثیوں کی شرکت کے حوالے سے یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ انھوں نے یمن کی جلاوطن حکومت کی جانب سے مذاکرات میں شرکت کے اعلان کے بعد جنیوا جانے سے اتفاق کیا ہے۔

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد گذشتہ چند ہفتوں سے یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات بحال کرانے کے لیے کوشاں تھے اور انھوں نے صنعا میں حوثیوں اور الریاض میں یمن کے جلا وطن صدر عبد ربہ منصور ہادی کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے مذاکرات کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے خلیجی عرب ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے بھی کیے ہیں۔

انھوں نے جنیوا میں یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات کے لیے 14 جون کی عبوری تاریخ مقرر کی ہے۔انھوں نے بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ یمنی حکومت جنیوا مذاکرات میں شرکت پر آمادہ ہے لیکن حوثی باغیوں نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

جنیوا مذاکرات کا مقصد تمام فریقوں کے درمیان جنگ بندی کرانا ،حوثیوں کا ان کے زیر قبضہ علاقوں سے انخلاء اور جنگ سے متاثرہ یمنیوں تک انسانی امداد بہم پہنچانا ہے۔اس وقت سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے لڑاکا طیارے یمن میں حوثی باغیوں اور ان کے اتحادی علی عبداللہ صالح کی وفادار فورسز کے خلاف فضائی حملے کررہے ہیں جبکہ ملک کے مختلف علاقوں میں حوثی باغیوں اور صدر منصور ہادی کی وفادار فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

سعودی اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں نے جمعرات کو صوبہ ایب میں حمزہ ملٹری بیس اور اسلحے کے ڈپوؤں پر بمباری کی تھی۔انھوں نے صوبہ ضامر میں بھی حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے۔ان حملوں سے قبل تعز اور مغربی شہر حدیدہ کے ساحلی علاقوں میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کی گئی تھی اور حوثیوں کے مضبوط گڑھ شمالی صوبے صعدہ میں بھی ان کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

.........................
.........................
اقوام متحدہ کو حوثیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے وفاداروں کی جانب سے جنیوا میں 14 جون کو ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کا انتظار 

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کو ابھی تک یمن کے حوثیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے وفاداروں کی جانب سے جنیوا میں 14 جون کو ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی باضابطہ تصدیق کا انتظار ہے۔

حوثیوں کی جنیوا میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے حوالے سے متضاد رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ایک یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ انھوں نے یمن کی جلاوطن حکومت کی جانب سے مذاکرات میں شرکت کے اعلان کے بعد جنیوا جانے سے اتفاق کیا ہے۔

حوثیوں کے سیاسی شعبے کے ایک رکن ضیف اللہ الشامی نے برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''ان کی تحریک پیشگی شرائط کے بغیر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام یمنی ،یمنی ڈائیلاگ میں شرکت کرے گی اور اس کی حمایت کرتی ہے''۔

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد گذشتہ چند ہفتوں سے یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات بحال کرانے کے لیے کوشاں تھے اور انھوں نے صنعا میں حوثیوں اور الریاض میں یمن کے جلا وطن صدر عبد ربہ منصور ہادی کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے مذاکرات کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے خلیجی عرب ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے بھی کیے ہیں۔

انھوں نے جنیوا میں یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات کے لیے 14 جون کی عبوری تاریخ مقرر کی ہے۔انھوں نے بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ یمنی حکومت جنیوا مذاکرات میں شرکت پر آمادہ ہے لیکن حوثیوں نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

جنیوا مذاکرات کا مقصد تمام فریقوں کے درمیان جنگ بندی کرانا ،حوثیوں کا ان کے زیر قبضہ علاقوں سے انخلاء اور جنگ سے متاثرہ یمنیوں تک انسانی امداد بہم پہنچانا ہے۔اس وقت سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے لڑاکا طیارے یمن میں حوثیوں اور ان کے اتحادی علی عبداللہ صالح کی وفادار فورسز کے خلاف فضائی حملے کررہے ہیں جبکہ ملک کے مختلف علاقوں میں حوثیوں اور صدر منصور ہادی کی وفادار فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

سعودی اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں نے جمعرات کو صوبہ ایب میں حمزہ ملٹری بیس اور اسلحے کے ڈپوؤں پر بمباری کی تھی۔انھوں نے صوبہ ضامر میں بھی حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے۔ان حملوں سے قبل تعز اور مغربی شہر حدیدہ کے ساحلی علاقوں میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کی گئی تھی اور حوثیوں کے مضبوط گڑھ شمالی صوبے صعدہ میں بھی ان کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

....................
....................
یمن کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔

اقوام متحدہ میں متعیّن یمنی سفیر خالد الیمنی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ یہ مذاکرات چودہ جون کو شروع ہوں گے اور اقوام متحدہ سرکاری طور پر بہت جلد اس تاریخ کا اعلان کرنے والی ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض رکن ممالک ان مذاکرات کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد نے بدھ کو سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں رکن ممالک کو تازہ صورت حال کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔

اجلاس کے بعد انگولا میں اقوام متحدہ کے سفیر اسماعیل ابراؤ گاسپار مارٹنز نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ یہ مذاکرات چودہ جون ہی کو ہوں گے۔اسماعیل ولد شیخ احمد نے قبل ازیں 28 مئی کو جنیوا میں یمنی فریقوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن یمنی حکومت اور دوسرے فریقوں کی جانب سے مزید وقت دینے کی درخواست کے بعد ان مذاکرات کو ملتوی کردیا گیا تھا۔
سعودی دارالحکومت الریاض میں مقیم یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے ایک مشیر نے منگل کے روز ایک بیان میں بتایا تھا کہ صدر نے مذاکرات میں شرکت کے لیے جنیوا جانے سے اتفاق کیا ہے۔حوثی باغیوں کے نائب کمان دار نے بھی کہا ہے کہ وہ جنیوا جانے کے لیے تیار ہیں۔

سفیر خالد الیمنی کا کہنا تھا کہ اگر حوثی مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہیں تو معاملات بآسانی آگے بڑھ سکتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون جنیوا مذاکرات کا آغاز کریں گے۔اس کے بعد ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد ایک ہی کمرے میں اور ایک میز پر یمنی فریقوں اور ان کے حامیوں سے ملاقات کریں گے۔

اقوام متحدہ میں متعین روسی سفیر ویٹالے چرکین نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ انھوں نے بدھ کو یمن کی صورت حال پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ روس کو جنیوا مذاکرات میں تاخیر اور یمن میں جاری جنگ ،خاص طور پر سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے لڑاکا طیاروں کے فضائی حملوں کے شہری آبادی پر اثرات کے حوالے سے گہری تشویش لا حق ہے۔

انھوں نے کہا کہ بمباری مہم کے شہری آبادی پر ڈرامائی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔حتیٰ کہ ثقافتی اور تاریخی عمارتوں وآثار پر بھی اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔تمام فریقوں کو ضبط وتحمل کی ضرورت ہے اور انھیں تشدد کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

مسٹر چرکین نے بین کی مون اور اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے نئے سربراہ اسٹیفن او برائن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمن میں انسانی بنیاد پر جنگ بندی کے ایک اور وقفے کے لیے کوششیں جاری رکھیں اور انسانی امداد بہم پہنچانے کے لیے سہولت کنندہ کا کردار ادا کریں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل یمن بحران کے حل کے لیے مذاکرات فوری طور پر شروع کرنے پر زوردیتے چلے آرہے ہیں اور وہ انسانی بنیاد پر دوبارہ جنگ بندی کے مطالبہ کررہے ہیں تاکہ جنگ سے متاثرہ یمنیوں کو ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد بہم پہنچائی جا سکے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے گذشتہ ماہ پانچ روز کے لیے جنگ بندی کی تھی اور یمن میں حوثی باغیوں پر فضائی حملے روک دیے تھے۔اس دوران عالمی امدادی اداروں نے جنگ سے متاثرہ یمنیوں کو انسانی امداد بہم پہنچائی تھی لیکن حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کے سرحدی علاقوں میں بار بار گولہ باری اور یمن کے مختلف شہروں میں صدر عبد ربہ منصور ہادی کی وفادار فورسز کے ساتھ لڑائی کے پیش نظر اس جنگ بندی میں مزید توسیع نہیں کی گئی تھی۔


.......................
........................
امریکی وزارت دفاع "پینٹا گون" نے اطلاع دی ہے کہ بحریہ نے طیارہ بردار نئے جنگی بحری بیڑے اور میزائلوں سے لیس بحری جہاز یمن کے پانیوں کی طرف روانہ کردیے ہیں۔ وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تازہ عسکری کمک یمن کے پانیوں میں بھجوانے کا مقصد صنعاء میں جاری لڑائی کے وسعت اختیار کرنے کی صورت میں خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
واشنگٹن میں العربیہ کی نامہ نگار نادیہ البلیسی کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے جنگی بحری جہازوں کی یمن کے سمندر میں روانگی کا مقصد خطے میں بحری ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانا اور بحری جہازوں کی معمول کی نقل وحرکت کا تحفظ کرنا ہے۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے اپنے جنگی بحری جہازوں کو صرف دفاعی نقطہ نظر سے یمن بھیجا جا رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے یمن میں کسی قسم کی فوجی کارروائی کا امکان بہت کم ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کےترجمان کرنل اسٹیف وارین نے خبروں کی تردید کہ جنگی بحری جہاز ایران کے ان بحری جہازوں کو روکنے کے لیے بھیجے گئے ہیں جو مبینہ طورپر یمن میں حوثی باغیوں کو اسلحہ مہیا کررہے ہیں۔
العربیہ کی نامہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکی بحری بیڑے تھیوڈور روزویلٹ اور نورمینڈی کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں جو اتوار کے روز خلیج عرب سے بحر عرب کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ خیال رہے کہ امریکا کے دو بحری بیڑوں کے ساتھ معاونت کے لیے ساتھ جنگی جہاز پہلے سے موجود ہیں۔

مشکوک مال بردار ایرانی جہاز

دوسری جانب امریکی حکام ان سات ایرانی مال بردار بحری جہازوں کی مانیٹرنگ کررہے ہیں جو ممکنہ طور پر یمن کی جانب روانہ کئے گئے ہیں تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا ان پر کس قسم کا سامان لادا گیا ہے۔
وائیٹ ہائوس کے ترجمان جوش ایرنسٹ کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ ایران کے کچھ بحری جہاز نامعلوم سامان کے ہمراہ یمن کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایران کی جانب سے یمن کے حوثی باغیوں کو اسلحہ کی ذریعے امداد کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ امریکا کا یمن کے حوثیوں کی ایران نوازی کے بارے میں موقف واضح ہے۔ امریکی اسلحہ سے خطے میں دیر پا امن کی مساعی کے بجائے تشدد میں اضافہ ہوگا۔
.................
ایران کی بری فوج کےسربراہ بریگیڈیئر احمد رضا بوردستان نے دھمکی دی ہے کہ اگرسعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی بند نہ کی تو تہران ریاض کےخلاف فوجی کارروائی سے گریز نہیں کرے گا.

ایران کے عربی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹیلی ویژن چینل "العالم" کی ویب سائیٹ پر جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بریگیڈیئر بوردستان نے ٹی وی کے پروگرام "ایران سے" میں گفتگو کرتےہوئے کہا کہ ان کا ملک سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا لیکن ریاض کو بھی یمن میں حوثیوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن بند کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں حوثیوں کے خلاف جاری لڑائی بند نہ کی تو جنگ کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں بھی سعودی عرب کے خلاف فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑے گا۔

خیال رہے کہ ایرانی فوجی عہدیدار کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثیوں کے خلاف "فیصلہ کن طوفان" آپریشن کامیابی کے ساتھ جاری ہے تاہم ایران اور اس کے حلیف بعض ممالک یمن میں سعودی عرب کے فوجی آپریشن کے خلاف ہیں۔

ایسے حالات میں سعودی فوجی عہدیدار کا کہنا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کے فوجی حملے بند نہ ہوئے تو ایرانی طیارے سعودی عرب پر بمباری کریں گے۔ مبصرین کے خیال میں ایران سعودی عرب میں عملا فوجی کارروائی کرنے کی پوزیشن نہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایران اس وقت شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی بغاوت کی تحریک کو کچلنے کے ساتھ ساتھ لبنان اور عراق میں بھی اپنی فوجی مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں تہران کے لیے کوئی نیا محاذ کھولنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر علی رضا بوردستان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو جنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی فوج ایک نا تجربہ کار عسکری گروپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ریاض حکومت کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ یمن میں فوجی کارروائی ترک کرکے بات چیت اور سیاسی عمل کے ذریعے مسئلے کا حل نکالے ورنہ جنگ خود سعودی عرب تک پھیل سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تہران سعودی عرب کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہیں ہے مگر اس کا فیصلہ اب سعودی عرب کو کرنا ہوگا کہ آیا وہ جنگ کو طول دینا چاہتا ہے یا اسے بات چیت کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں مجبور کیا گیا تو سعودی عرب کی سرزمین میں بھی فوجی کارروائی سے گریز نہیں کریں گے۔

ایرانی بری فوج کے سربراہ نے بالواسطہ طورپر یمن کے حوثی باغیوں اور برطرف صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار ملیشیا پر سعودی عرب پرحملوں کی بھی ترغیب دی اور کہا کہ حوثی باغیوں اور علی عبداللہ صالح کے وفاداروں کے پاس سعودی عرب پرحملوں کی بھی صلاحیت موجودہے۔

بریگیڈیئر علی رضا بوردستان کا بیان پاسدارن انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی کے اس بیان سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے جس میں انہوں نے یمن کے حوثی باغیوں کو سعودی عرب پر حملوں کی ترغیب دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حوثیوں کے پاس سعودی عرب کے تمام شہروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل موجود ہیں۔

....................
یمن کا تنازعہ جاری ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے یمن میں تمام فریقوں سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

عالمی ادارے کے سربراہ کی جانب سے یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے 26 مارچ کو مبینہ طور پر ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف فضائی مہم کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ جنگ روکنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔

بین کی مون نے واشنگٹن میں جمعرات کی رات نیشنل پریس کلب میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مشرق وسطیٰ کا یہ غریب ترین ملک پہلے ہی مسائل زدہ تھا،لوگ بھوک اور غربت کا شکار ہیں اور اب جنگ نے ان مسائل کو دوچند کردیا ہے۔اسی وجہ سے میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کررہا ہوں''۔انھوں نے کہا:''سعودیوں نے مجھے یہ یقین دہانی کرائی ہے اور وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ یمن میں بحران کے حل کے لیے ایک سیاسی عمل ہونا چاہیے۔اس لیے میں تمام یمنیوں سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ نیک نیتی سے اس سیاسی عمل میں شریک ہوں''۔

سی سپین ریڈیو سے نشر کی گئی اس تقریر میں انھوں نے کہا کہ ''اقوام متحدہ سفارتی عمل کی حمایت کرتی ہے اور یہ جنگ سے نکلنے کا واحد راستہ ہے کیونکہ اس جنگ کے علاقائی استحکام کے لیے خوف ناک مضمرات ہوں گے''۔

بین کی مون آج جمعہ کو یمن کے لیے اقوام متحدہ کے نئے خصوصی ایلچی کا تقرر کرنے والے ہیں۔سابقہ ایلچی جمال بن عمر بدھ کو اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں اور اب ان کی جگہ موریتانیہ سے تعلق رکھنے والے سفارت کار اسماعیل ولد شیخ احمد کا تقرر کیا جارہا ہے۔وہ اس منصب کے لیے واحد امیدوار ہیں۔وہ ایک تجربے کار اور منجھے ہوئے سفارت کار ہیں اور انھیں یمن میں اقوام متحدہ کے تحت انسانی امداد کی سرگرمیاں انجام دینے کا بھی تجربہ ہے۔
..............
سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ یمن میں حوثیوں کی شورش پسندی کے پیچھے ایران کا ہاتھ کارفرما ہے۔انھوں نے مزید کہا ہے کہ ایران ہی نے شیعہ ملشیائیں قائم کیں اور انھیں اسلحہ مہیا کیا ہے۔

احمد العسیری دارالحکومت الریاض میں صحافیوں کو یمن میں حوثیوں کے خلاف جاری آپریشن فیصلہ کن طوفان کے بارے میں معمول کی بریفنگ دے رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ اتحاد کے تحت چلنے والے بحری جہازوں نے یمن میں اسلحہ اسمگل کرنے کی کسی کوشش کا سراغ نہیں لگایا ہے اور اس وقت یمن کی ساحلی اور فضائی حدود ان کے کنٹرول میں ہیں۔ اتحادی طیاروں نے یمن کے جنوبی علاقوں میں حوثی باغیوں کی مزاحمت کرنے والے مقامی گروپوں کے لیے فوجی اور طبی امدادی سامان بھی گرایا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اتحادی طیاروں نے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ سعودی عرب کی برّی فوج نے یمن کے ساتھ سرحدی علاقے میں حوثی جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

درایں اثناء ملائشیا کے وزیردفاع سعودی عرب کے دورے پر الریاض پہنچے ہیں۔وہ سعودی قیادت سے یمن میں حوثیوں کے خلاف جاری فوجی مہم کے سلسلے میں تبادلہ خیال کریں گے۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی قیادت میں اعلیٰ سطح کا ایک وفد بھی سعودی دارالحکومت میں ہے۔

وفد میں وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز بھی شامل ہیں۔وفد نے بدھ کو جدہ میں سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعودالفیصل سے ملاقات کی ہے اور وہ جمعرات کو الریاض میں سعودی ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری مہم میں فوجی تعاون سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کرے گا۔

وفد سعودی قیادت کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے حوثیوں کے خلاف مہم میں مکمل حمایت کی یقین دہانی کرانے کے لیے گیا ہے۔پاکستان کی پارلیمان نے گذشتہ جمعہ کو متقفہ طور پر ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں حکومت پر زوردیا تھا کہ وہ یمن بحران میں غیر جانبدار رہے اور بحران کے مذاکرات کے ذریعے حل کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں کرے۔
...................
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن میں جاری خانہ جنگی کے مرکزی کردار حوثیوں کو اسلحہ فروخت کرنے یا مہیا کرنے پرپابندی عاید کردی ہے اور ملک کے معزول صدر علی عبداللہ صالح کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔

سلامتی کونسل کے چودہ رکن ممالک نے منگل کو اقوام متحدہ کے منشور کے باب سات کے تحت قرارداد نمبر 2216 کی متفقہ طور پر منظوری دی ہے جبکہ روس عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ قراداد پر رائے شماری کے وقت اجلاس سے غیر حاضر رہا ہے۔اس کا موقف تھا کہ اس کی مجوزہ ترامیم کو قرارداد میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔سلامتی کونسل نے منظور کردہ قرارداد کے ذریعے یمن کی سابق ایلیٹ ری پبلکن گارڈ کے سابق سربراہ احمد صالح اور حوثی گروپ کے سربراہ عبدالملک الحوثی کے دنیا بھر میں اثاثے منجمد کر لیے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں عاید کردی ہیں۔سلامتی کونسل نے قبل ازیں نومبر2014ء میں حوثی گروپ کے دواور سینیر لیڈروں عبدالخالق الحوثی اور عبداللہ یحییٰ الحکیم کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔

قرارداد کے تحت پانچ افراد اور یمن میں ان کی ہدایات یا احکامات پر چلنے والے دوسرے افراد پر اسلحے کی پابندی عاید کی گئی ہے۔اس پابندی کا اطلاق حوثیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے وفاداروں پر ہوگا۔
قرارداد میں حوثیوں سے لڑائی بند کرنے اور دارالحکومت صنعا سمیت اپنے زیر قبضہ علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس میں سابق صدر علی عبداللہ صالح کی جانب سے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے اقدامات اور حوثیوں کی کارروائیوں کی حمایت پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں متعیّن امریکی سفیر اسمنتھا پاورز نے کہا ہے کہ امریکا یمن میں حوثیوں کی کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے اور ان کی کارروائیوں ہی کے نتیجے میں ملک عدم استحکام سے دوچار ہوگیا ہے۔
سلامتی کونسل میں قطر کی سفیر شیخہ عالیہ بنت احمد بن سیف آل ثانی کا قرارداد کی منظوری کے بعد کہنا تھا کہ اب حوثیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ فوری طورپر اپنی کارروائیوں سے باز آجائیں۔

اقوام متحدہ میں سعودی سفیر عبداللہ المعلمی نے قرارداد کو یمنی عوام کی فتح قراردیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کے مسودے سے واضح ہے کہ یمن میں حوثیوں کے اقدامات ناقابل قبول ہیں۔یمن میں زمینی فوج بھیجنے سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے فیصلہ کرنا فوجی کمانڈروں کا کام ہے۔
.......................
سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادی افواج کے فیصلہ کن طوفان آپریشن کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد العسیری کا کہنا ہے کہ ہمارے حملوں کا مقصد عدن میں حوتیوں کو سپلائی پہنچنے سے روکنا ہے، ہمارے فضائی حملوں سے ہمیں اس مقصد میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔

انہوں نے آپریشن سے متعلق سوموار کے روز کارروائیوں کی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ عدن کے علاقے میں اتحادی فوج نے ملیشیاوں کی نقل و حرکت کو بڑی حد تک محدود کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام یمنی شہریوں کے قتل میں مصروف ملیشیاوں کو جنگ بندی کا اعلان کر دینا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں جنرل عسیری نے کہا کہ حوثیوں کے اہم کمانڈر کی ہلاکت سے متعلق ہمارے پاس مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔"ہمارے جہازوں نے حوثیوں کے صعدہ، عمران اور صنعاء میں مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ باغی ملیشیا اسلحے کو چھپانے کے لئے کھیل کے میدان استعمال کر رہے ہیں۔ غیر ملکی ماہرین نے انہیں اس مقصد کے لئے زیر زمین سرنگیں اور غار بنانے سکھائے ہیں۔ اس لئے ہمارے فضائی حملوں کا زیادہ فوکس یہی اسلحہ ڈپو ہیں۔"انہوں نے مزید بتایا کہ باغی ملیشیاوں کے مواصلاتی اسٹیشنز بھی اتحادی فوج کے فضائی حملوں کا خصوصی ہدف ہیں۔ باغی ملیشیا کے ارکان یمن-سعودی عرب سرحد پر وقفے وقفے سے راکٹ باری کر رہے ہیں۔ ایسے حملوں کے ذریعے وہ خود پر اتحادی فوج کے حملوں سے پیدا ہونے والے دباو میں کمی کی کوشش کرتے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ سرحد کے قریب یمنی ملشیاوں سے زمین پر کسی قسم کی لڑائی نہیں ہو رہی ہے۔

یمنی ملیشیاوں کے ابتک تباہ ہونے والے اسلحے کے بارے میں سوال کے جواب میں احمد العسیری کا کہنا تھا کہ جتنا اسلحہ اتحادی فوجی حملوں میں جنگ کے آغاز سے تباہ کیا جا چکا ہے، اتنا ہی اسلحہ اس وقت حوثیوں کے زیر استعمال ہے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ اتحادی فوج کے حملوں کے ہاتھوں مجبور پر عدن میں حوتی اگلے چند دنوں میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آنے والے دن عام یمنیوں کے لئے مواقف ہوں گے۔ ان میں عام شہری کو بہتری سہولیات بہم پہنچائی جائیں گی۔

................
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور ملک کی مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر ان چیف الشیخ محمد بن زاید آل نھیان اعلیٰ اختیاراتی وفد کےہمراہ خصوصی دورے پر سعودی عرب پہنچے ہیں جہاں انہوں نے سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن نایف سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقات کی ہے۔

سعودی عرب کی خبر رساں ایجنسی’’واس‘‘ کے مطابق اماراتی وفد کی نائب ولی عہد سے ملاقات کے موقع پر سعودی وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان بھی موجود تھے۔ ملاقات میں علاقائی اور عالمی مسائل بالخصوص یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

خیال رہے کہ اتوارکی شام ابو ظہبی کے ولی عہد اور مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر ان چیف الشیخ محمد بن زاید نھیان ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ ریاض پہنچے تھے۔ ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پرنائب ولی عہد شہزادہ محمد بن نایف، وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان، وزیر مملکت ڈاکٹر سعود بن خالد الجبری اور سعودی عرب میں متحدہ عرب امارات کے سفیر محمد سعید الظاھری نے ان کا استقبال کیا۔

اماراتی وفد میں ولی عہد کے ہمراہ نائب وزیراعظم الشیخ سیف بن زاید آل نھیان، قومی سلامتی کے مشیر الشیخ طحنون بن زاید آل نھیان، نائب وزیراعظم الشیخ منصور بن زاید آل نھیان ، وزیرخارجہ الشیخ عبداللہ بن آل نھیان، نائب وزیر برائے صدارتی امور احمد جمعہ الزعابی اور ڈپٹی کمانڈر ان چیف کے ملٹری ایڈوائزر میجر جنرل جمعہ احمد البواردی الفلاسی شامل تھے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہے۔انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہوجائے گا۔ وہ دارالحکومت الریاض میں اتوار کو فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں فابیئس کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے 26 مارچ کو یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی دعوت پر حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف حملے شروع کیے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یمن میں ایران کے کردار نے مسئلے کو بگاڑ دیا ہے اوراس کی وجہ سے ملک میں تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔شہزادہ سعود الفیصل نے کہا کہ ''ایران ہمیں یمن میں لڑائی ختم کرنے کے لیے کیسے کہہ سکتا ہے۔ہم یمن میں ایک مجاز اتھارٹی کے دفاع کے لیے گئے تھے اور ایران یمن کا داروغہ (انچارج) نہیں ہے''۔

سعودی وزیر خارجہ نے چھے بڑی طاقتوں کے اسی ماہ ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کے تنازعے پر طے پائے فریم ورک سمجھوتے کے حوالے سے بھی اظہار خیال کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ خطے کی سکیورٹی میں اضافے کی جانب اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

اس موقع پر فرانسیسی وزیرخارجہ نے سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی مہم کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کے تنازعے پر حالیہ فریم ورک سمجھوتے کے حوالے سے کہا کہ حتمی معاہدہ طے پانے سے قبل ابھی دو اہم نکات پر بات چیت ہونا ہے۔

انھوں نے شام میں جاری بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زوردیا اور کہا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندہ حکومت کے قیام کی صورت ہی میں اس بحران کو طے کیا جاسکتا ہے۔

لوراں فابیئس ہفتے کی رات دارالحکومت الریاض پہنچے تھے اور انھوں نے اتوار کو سعودی قیادت سے ملاقات میں یمن کی صورت حال اور دوسرے علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔انھوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ''یمن کے حوالے سے ہم یہاں سعودی حکام کی خاص طور پر سیاسی حمایت کے لیے آئے ہیں''۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ یمن میں جاری بحران کے سیاسی حل کے لیے بات چیت کی جانی چاہیے۔

قبل ازیں ان کے ہم سفر وفد کے ایک رکن نے کہا کہ ''فابیئس سعودی میزبانوں کے ساتھ ملاقات میں یہ واضح کریں گے کہ فرانس فطری طور پر یمن میں حالات معمول پر لانے کے لیے اپنے علاقائی شراکت دار کے ساتھ ہے''۔

واضح رہے کہ فرانس سعودی عرب اور امریکا کی طرح صدر عبد ربہ منصور ہادی ہی کو یمن کا حقیقی اور جائز حکمران تسلیم کرتا ہے اور اس نے یمن میں ماضی میں القاعدہ کے خلاف امریکا کے ڈرون حملوں کی بھی حمایت کی تھی۔

امریکا یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں ''آپریشن فیصلہ کن طوفان'' کے لیے انٹیلی جنس معلومات فراہم کررہا ہے اور اس نے دوران پرواز سعودی طیاروں میں ایندھن بھرنے کا کام بھی شروع کردیا ہے جبکہ فرانس نے ابھی تک سیاسی حمایت کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے۔
...................
سعودی قیادت والے اتحاد نے ہفتے کو یمن کی بندرگاہ والےجنوبی شہر، عدن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف نئے فضائی حملے کیے، جس کارروائی میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے۔

سعودی عرب کے اتحاد نے سترہویں روز اپنی فضائی بمباری جاری رکھی، جس سے یہ خدشہ ہو چلا ہے کہ یہ لڑائی یمن کو ایک ناکام ریاست کی سطح پر پہنچا دے گی۔ مقامی مسلح گروہوں نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جنوب کی طرف پیش قدمی روک دی ہے۔ تاہم، باغیوں نے کلیدی حکومتی تنصیبات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔دریں اثنا، اتحاد سے وابستہ خیال کیے جانے والے قبائل، لڑاکا طیاروں کی مدد سے، ملک کےمشرقی شہر، عطاق پر قبضہ کرنے والے ہیں، جہإں حوثی اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے وفادار فوجی اکٹھا ہو رہےہیں۔ہلال احمر نے ہفتے کے روز تقریباً 36 ٹن کی امدادی رسد، جس میں طبی امداد، پانی صاف کرنے والے آلات اور جنریٹر شامل ہیں، باغیوں کے زیر تسلط یمنی دارالحکومت، صنعا پہنچائے، جو رسد فراہم کیے جانے کا متواتر دوسرا دِن تھا۔

یمن میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی کارروائیوں کے رابطہ کار، جوہانس وان ڈر کلاؤ نے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ ہر روز لڑائی میں کم از کم چند گھنٹوں کا وقفہ انتہائی ضروری ہے، تاکہ مزید طبی امداد اور انسانی بنیادوں پر امداد یمن پہنچائی جاتی رہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عدن کی صورت حال ’اگر تباہ کُن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے‘۔

جمعے کو، عرب اتحاد نے صنعا میں حوثیوں کے ٹھکانوں اور اسلحے کے ذخیرے پر فضائی کارروائیاں کیں۔
.............
اقوام متحدہ نے یمن میں متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے روزانہ چند گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ کریں تاکہ متاثرہ علاقوں میں طبی اور دیگر امدادی کاموں کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے یمن سے متعلق ڈائریکٹر یوھانس فاڈیر کلائو نے جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی بحالی کی فوری ضرورت ہے۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فریقین چند گھنٹے کی جنگ بندی کا فیصلہ کریں تاکہ امدادی کاموں کا سلسلہ بھی شروع کیا جا سکے۔

..................
ایرانی صدر حسن روحانی نے سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کے یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف فضائی حملے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔انھوں نے خطے کے ممالک پر زوردیا ہے کہ وہ بحران کے سیاسی حل کے لیے کوششیں کریں اور بھائی چارے کا جذبہ اپنائیں۔

حسن روحانی نے جمعرات کو ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر کی گئی تقریر میں کہا ہے کہ''یمن جیسی عظیم قوم کو بمباری سے جھکایا نہیں جاسکتا ہے۔آئیے ہم سب مل کر جنگ کے خاتمے سے متعلق سوچیں اور جنگ بندی سے متعلق بات کریں''
۔
انھوں نے کہا:''میں خطے کے ممالک سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آئیے بھائی چارے کا جذبہ اپنائیں۔ایک دوسرے کا اور دوسری اقوام کا احترام کریں۔کسی قوم کو بمباری سے جھکایا نہیں جاسکتا ہے''۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ''معصوم بچوں کو قتل نہ کریں،آئیے جنگ کے خاتمے سے متعلق سوچیں۔جنگ بندی اور یمن کے مصیبت زدہ عوام کے لیے انسانی امداد کی بات کریں''۔

ان کا کہنا تھا کہ فضائی حملے اور بمباری غلط ہے۔انھوں نے شام اور عراق کی مثالیں دیں جہاں امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک کے لڑاکا طیارے داعش کے جنگجوؤں کو حملوں میں نشانہ بنا رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ''آپ بہت جلد یہ جان لیں گے کہ آپ یمن میں ایک غلطی کررہے ہیں''۔ تاہم انھوں نے کسی خاص ملک کا نام نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ ظاہر ہے سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کی جانب تھا جو یمن میں حوثی شیعہ باغیوں اور ان کے اتحادیوں پر گذشتہ دو ہفتوں سے حملے کررہے ہیں۔

ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ''ہمیں یمنیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکیں۔آئیے اس بات کو بھی تسلیم کریں کہ یمن کا مستقبل یمنی عوام کے ہاتھ میں ہوگا،کسی اور کے ہاتھ میں نہیں''۔

سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک نے یمن کے منتخب صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کی حمایت میں حوثی باغیوں کے خلاف حملے شروع کیے تھے جبکہ ایران حوثیوں کی پشتی بانی کررہا ہے لیکن وہ اس سے انکاری بھی ہے کہ وہ حوثیوں کو مالی یا عسکری امداد دے رہا ہے۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید نے بھی ایران پر بدھ کو ایک نیوزکانفرنس کے دوران یمن کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام عاید کیا تھا۔دوسری جانب گذشتہ روز ہی ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے اسلام آباد کے دورے کے موقع پر پاکستان پر زوردیا تھا کہ وہ یمن میں جاری بحران کے سیاسی حل کےلیے کوششیں کرے اور سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد میں شامل نہ ہو

.....................
سعودی عرب کی قیادت میں حوثی مخالف فوجی اتحاد کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایرانی بحری جہازوں کو بین الاقوامی پانیوں میں موجود رہنے کا حق حاصل ہے لیکن انھیں یمن کی علاقائی حدود میں پانیوں میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بریگیڈیئر جنرل احمد عسیری بدھ کو سعودی دارالحکومت الریاض میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔انھوں نے ایران کی جانب سے آج خلیج عدن میں دو جنگی بحری جہاز بھیجنے کے فیصلے کے ردعمل میں یہ ریمارکس دیے ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ وہ یہ جنگی بحری جہاز مال بردار جہازوں کے تحفظ کے لیے بھیج رہا ہے۔تاہم جنرل عسیری نے ''آپریشن فیصلہ کن طوفان'' سے متعلق روزانہ کی بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ فوجی اتحاد ایران کی جانب سے حوثیوں کو مسلح کرنے کی کسی بھی کوشش کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔

انھوں نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا ہے کہ طبی سامان اور ادویہ سے لدا ہوا ایک بحری جہاز عدن کی بندرگاہ پر لنگراندز ہوگیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یمن میں حوثی بغاوت کے خاتمے کی ضرورت ہے تاکہ وہ القاعدہ کے جنگجوؤں سے نبرد آزما ہوسکے۔

بریگیڈیئر جنرل احمد عسیری نے منگل کو اپنی نیوز بریفنگ کے دوران ایران اور حزب اللہ پر حوثیوں کو عسکری تربیت دینے کا الزام عاید کیا تھا تاکہ وہ یمنیوں کو ''اذیت'' سے دوچار کرسکیں۔انھوں نے کہا کہ ''ہمارے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ ایران نے حوثی ملیشیا کو لڑاکا طیارے اڑانے کی تربیت دی تھی''۔دوسری جانب ایران حوثی ملیشیا کو فوجی امداد مہیا کرنے سے متعلق الزامات کی تردید کرتا چلا آرہا ہے۔ 

یمن میں حوثیوں کے خلاف اتحادی فوج کی فضائی کارروائی چودہویں روز بھی جاری ہے۔ جنگی فضائی کارروائی میں مرنے والوں کی تعداد پانچ سو اکیانوے ہوگئی ہے جبکہ ایران نے دو جنگی بحری جہاز خلیج عدن بھیج دیے ہیں۔اتحادی فوج کے ترجمان بریگیڈئیر احمد العسیری کے مطابق اتحادی طیاروں نے دارالحکومت صنعا، عدن اور ساحلی پٹی کے دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا اور جنگجووں  و سابق صدر علی الصالح کے حامیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ العسیری نے دعویٰ کیا کہ عدن میں تازہ بمباری میں چالیس حوثی مارے گئے۔ اس طرح فضائی کارروائی اور عدن میں لڑائی سے باغی، سابق صدر الصاح کے حامیوں اور عام شہریوں سمیت تقریباً چھ سو افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے ہیں۔ 

عدن میں حوثی باغیوں اور صدر منصور ہادی کی فوج میں جھڑپیں جاری رہیں۔ جھڑپوں میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔دوسری جانب ایران نے دو جنگی جہاز خلیج عدن روانہ کر دیے ہیں۔ امریکا سمیت عرب ممالک نے ایران کے قدم پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ تہران کا مؤقف ہے کہ جنگی بحری جہاز بھیجنے کا مقصد خلیج عدن میں جہازوں کو بحری قزاقوں سے بچانا ہے۔ عالمی ریڈ کراس کی امداد یمن پہنچ گئی ہے۔ جلد خانہ جنگی کے متاثرین میں تقسیم کی جائے گی۔

.......................
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک روزہ دورہٴ ایران کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا تاہم دونوں رہنما یمن کے تنازعے میں باہمی اختلافات پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے رہے۔

ایردوآن کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر عمل میں آ رہا ہے، جب ترکی اور اُس کے ہمسایہ ملک ایران کے درمیان تعلقات شام کے حوالے سے اختلافات کی وجہ سے پہلے ہی سرد مہری کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ اب یمنی تنازعے کی وجہ سے بھی ترک ایران تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ دونوں ملک دو مختلف فریقوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

ایردوآن الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ایران خطّے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ کچھ ایرانی اراکینِ پارلیمان نے تہران حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ایردوآن کا دورہ منسوخ کر دے جبکہ ایک ایرانی سیاستدان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایردوآن عثمانی سلطنت کا احیاء چاہتے ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کا البتہ کہنا یہ ہے کہ چونکہ دونوں ملکوں کی اقتصادیات ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں، اس لیے دونوں کے درمیان اختلافِ رائے بھی حدود کے اندر ہی رہے گا۔ واضح رہے کہ ترکی کو ایرانی گیس کی ضرورت ہے جبکہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے شدید دباؤ میں آئے ہوئے ایران کو برآمدی منڈیوں کی اشد ضرورت ہے۔

منگل سات اپریل کو ترک صدر ایردوآن اور اُن کے ایرانی ہم منصب روحانی نے تہران میں آٹھ سمجھوتوں پر دستخط کیے اور اس بات پر زور دیتے رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اشتراکِ عمل کیوں اس قدر ضروری ہے۔ ایردوآن نے کہا کہ دونوں ملک باہمی تجارت کے حجم کو تیس ارب ڈالر کے ہدف تک لے جانے کی منزل سے ابھی بہت دور ہیں۔ واضح رہے کہ 2014ء میں ترکی اور ایران کی باہمی تجارت کا حجم چَودہ ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ایردوآن نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ترکی اور ایران کو باہمی تجارت ڈالروں یا یوروز میں کرنے کی بجائے اپنی ملکی کرنسیوں میں شروع کر دینی چاہیے تاکہ ان غیر ملکی کرنسیوں میں تبادلے کی شرحوں میں اتار چڑھاؤ کے اثرات سے بچا جا سکے۔

ایردوآن اور روحانی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا، جس کی کارروائی ترک ٹیلی وژن پر براہِ راست دکھائی گئی۔ اس پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنما علاقائی کشیدگی کو زیادہ اہمیت دینے سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور اُنہوں نے یمنی تنازعے کے حل کے لیے کسی طرح کی ٹھوس تجاویز کا ذکر نہیں کیا۔ ایردوآن نے کہا:’’مَیں فرقوں کو نہیں دیکھتا۔ مجھے کسی کے شیعہ یا سنّی ہونے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں مسلمانوں کو (بحیثیتِ مجموعی) دیکھتا ہوں۔ ہمیں اس خونریزی اور موت (کے کھیل) کو روکنا ہو گا۔‘‘ ایردوآن، جو ایک کٹر سنی العقیدہ مسلمان ہیں، یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں جاری فوجی مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس تہران حکومت شیعہ حوثی باغیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

اس پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا:’’ہمارے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ یمن میں جاری جنگ اور خونریزی جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔‘‘
...............
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں سعودی عرب کے مستقل مندوب عبداللہ المعلمی کا کہنا ہے کہ روس، عالمی ادارے میں یمن سے متعلق عرب ملکوں کے منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کا سامان پیدا کر رہا ہے۔
سفارتکاروں کے مطابق روس نے ہفتے کے روز ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں یمن کے اندر انسانی بنیادوں پر فائر بندی کی اپیل کی گئی ہے۔

سیکیورٹی کونسل نے یمن میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کونسل کی صدر نشین اور اردن کی مستقل مندوب دینا قعوار کا کہنا تھا کہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک یمن کی سیاسی صورتحال سے متعلق ایک قرارداد لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی کونسل اس سلسلے میں کسی اتفاق رائے پر پہنچنا چاہتی ہے۔

 روس کی جانب سے ایک صفحے پر مشتمل قرارداد پیش کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فیصلہ کن آپریشن کے تحت یمن میں فضائی حملے بند کئے جائیں تاکہ غیر ملکیوں کا انخلاء مکمل ہو سکے اور فوری و ضروری انسانی امداد علاقے میں پہنچائی جا سکے۔ قرارداد میں روس کی تجویز کردہ فائر بندی کی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی اور نہ ہی اس میں حوثیوں سے کوئی مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں متحارب حوثیوں سے زیر قبضہ شہر واپسی اور مذاکرات شروع کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔جمعہ کی شب یو این میں موجود متعدد سفارتکاروں نے بتایا کہ ماسکو نے اپنی قرارداد پر بحث کے لئے فوری طور پر سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ 

یو این میں روسی مشن کے مطابق انہوں نے مشورے کے لئے پندرہ رکنی عالمی فورم کے بند کمرے کا اجلاس بلانے کے لئے کہا تاکہ عرب اتحادیوں کے یمن میں فضائی حملوں کو انسانی بنیاد پر روکنے پر غور کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردن کے ایک سفارت کار نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن کی ’سنگین صورت حال‘ پر انسانی بنیادوں پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا ہے، اور یہ کہ ایک قرارداد زیر غور ہے، جس میں انسانی بنیادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب سے فضائی کارروائی روکنے کے لیے کہا جائے گا۔

اقوام متحدہ میں اردن کی سفیر، دینا کاور نے کہا ہےکہ سلامتی کونسل کے ارکان کو یہ توقع ہے کہ روس کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد پر پیر کو فیصلہ ہوگا۔

اِن خیالات کا اظہار، اُنھوں نے اِس ماہ کے لیےکونسل کی صدر کی حیثیت سے اپنے خطاب میں کیا۔   
روس کی درخواست پر، ارکان نے ہفتے کے روز یمن پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا، جو 15 رکنی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔

سعودی عرب، اُس ’عرب اتحاد‘ کا سرکردہ رکن ہے جس نے ایک ہفتے سے یمن میں حوثی شیعہ باغیوں پر بمباری جاری رکھی ہے۔ یہ فضائی کارروائی ہفتے کو بھی جاری رہی، جِس دوران دارلحکومت، صنعا میں باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اقوام متحدہ میں روس کے معاون سفیر، ولادیمیر سفرونکوف نے کہا ہے کہ فوجی کارروائی میں وقفہ دینے سے اِس تنازع میں یمن سے سفارت کاروں اور شہریوں کی بحفاظت انخلا کے کام میں مدد ملے گی۔
ادھر، اقوام متحدہ میں برطانیہ کے معاون سفیر، پیٹر ولسن نے شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ برطانیہ عرب اتحاد کی حمایت جاری رکھے گا۔اُنھوں نے کہا ہے کہ یمن میں شیعہ باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کا آغاز  گذشتہ ہفتے اُس وقت ہوا جب یمن کے صدر عبدالربو منصور ہادی کی جانب سے ’باضابطہ درخواست‘ پر ہوا۔ولسن کے بقول، ’ہم اِس نہج پر اس لیے پہنچے ہیں، کیونکہ حوثیوں نے جنگ بندی کی بار بار خلاف ورزی کی، فوجی کارروائی جاری رکھی، حقیقی نوعیت کی سیاسی بات چیت کے بجائے طاقت کا استعمال شروع کیا‘۔

اُنھوں نے مزید کیا کہ، ’اِس بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ برابری کی بنیاد پر حقیقی سیاسی مذاکرات کی طرف لوٹنے میں پنہاں ہے، نہ کہ طاقت کا استعمال میں‘۔

یہ بند کمرے کا اجلاس تھا جو روس کی درخواست پر ہوا، جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یمن میں سعودی قیادت میں جاری فضائی کارروائیوں میں وقفے کی درخواست کرنا ہے۔

یمن میں گزشتہ سال شیعہ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا اور اس ملک میں یہ قبائل ایک نئی پرتشدد قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہوں نے مختلف علاقوں میں قبضوں کے لیے پیش قدمی شروع کر رکھی ہے۔

حکومت کی عملداری تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے اور یمن کے صدر عبدالربو منصور ہادی پہلے صنعا اور پھر عدن سے اطلاعات کے مطابق سعودی عرب منتقل ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں اپنے خلیجی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر حوثی باغیوں کو یمن میں فضائی کارروائیوں کے ذریعے نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس لڑائی میں اب تک کم از کم 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے مشن کا کہنا ہے کہ 15 رکنی کونسل کے اجلاس میں "اتحادیوں کی یمن میں فضائی کارروائیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روکنے کے معاملے پر بات چیت کی جائے گی۔"

یمن میں لڑائی کے دوران بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں پر بھی اقوام متحدہ کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس کے عہدیداروں کے بقول اب تک 60 سے زائد بچے بھی اس تنازع میں مارے جا چکے ہیں۔

سعودی عرب نے یمن میں باغیوں کے خلاف جاری آپریشن کے لیے کئی دیگر ممالک سے شرکت کے لیے رابطے کیے ہیں جبکہ اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے عرب لیگ کے ہونے والے اجلاس میں ایک مشترکہ عرب فورس تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اس فورس میں کم ازکم 40 ہزار اہلکار شامل ہوں گے جنہیں لڑاکا طیاروں، جنگی بحری جہازوں اور توپ خانوں کی مدد بھی حاصل ہوگی۔
..................
یمن کے تاریخی صوبے حضر موت کا المکلا شہر القاعدہ کے مسلح جنگجووں کے مکمل طور پر زیر نگیں آ گیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق شہر میں حکومت کی سول، فوجی اور تمام سیکیورٹی تنصیبات پر القاعدہ کا کںڑول ہے۔

القاعدہ جنگجووں نے جلاوطن صدر عبد ربہ منصور ہادی کی صدارت کو دستوری قرار دینے والی سیکنڈ ملٹری زون کے ہیڈکوارٹرز کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ انہی جنگجووں نے المکلا کے مشرق میں الدیس کالونی کے الحمایہ اور 27 میگا بریگیڈ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔مقامی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ معزول صدر علی عبداللہ صالح کی حامی فوجی اور سیکیورٹی کمان کسی مزاحمت کے بغیر سول اور فوجی تنصیبات القاعدہ کے حوالے کر رہی ہے۔ یہ اقدام صالح کی حامی فوج کی اس گندی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ جس پر عمل کر کے سابق صدر کے حامی یمن کے جنوبی شہروں میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔

اسی ضمن میں فوجی ذرائع نے 'العربیہ' نیوز چینل کو یہ بات ذمہ داری کے ساتھ بتائی کہ المکلا میں صدارتی گارڈ اور خصوصی فورس کا کیمپ بھی القاعدہ کے حوالے کئے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ صدارتی گارڈز اور اسپیشل فورس معزول صدر علی عبداللہ صالح کے حامی ہیں۔ انہی پر مشتمل فوجی دستے حوثیوں کو یمن کے مختلف شہروں میں لڑائی کے لئے کمک اور ساز و سامان فراہم کر رہے ہیں۔

..............
یمن میں صدر عبدالرب منصور ہادی کے حامیوں کے حملوں کے بعد حوثی باغی شہر کے مرکز سمیت بیشتر علاقوں سے پسپا ہوگئے ہیں۔

جنوبی یمن سے تعلق رکھنے والے صدر ہادی کے حامی قبائلیوں اور حوثی باغیوں کے درمیان جمعے کو عدن کے وسطی علاقے میں شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔

اطلاعات کے مطابق حکومت کے حامی جنگجووں کو سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے عرب اتحاد کی جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل تھی جنہوں نے شہر میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر بمباری کا سلسلہ جمعے کوبھی جاری رکھا۔

اتحادی طیاروں اور قبائلیوں کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد حوثی باغی جمعے کی شام تک عدن کے بیشتر علاقے سے پسپا ہوچکے تھے۔ باغیوں نے عدن کا صدارتی محل بھی خالی کردیا ہے جس پر انہوں نے گزشتہ روز قبضہ کرلیا تھا۔

عدن کے گورنر عبدالعزیز بن حبطور نے عرب ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ وسطی عدن کا 95 فی صد علاقہ صدر ہادی کے حامی قبائلیوں کے قبضے میں آگیا ہے۔

حوثیوں کے خلاف تشکیل پانےو الے عرب اتحاد کے سعودی ترجمان جنرل احمد عصیری نے ریاض میں صحافیوں کو بتایا کہ حوثی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اب بھی عدن پر قابض ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں وہاں سے پسپا کردیا گیا ہے۔

دریں اثنا اطلاعات ہیں کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجووں نے ملک میں جاری بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبہ حضرِ موت کے دارالحکومت المکلا کی چھاؤنی پر قبضہ کرلیا ہے۔

علاقے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حضرِ موت میں آباد قبائل کے مسلح جنگجو چھاؤنی کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں تاکہ جنگجووں کا قبضہ چھڑایا جاسکے۔

نشریاتی ادارے 'اسکائی نیوز عریبیہ' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ جنگجو المکلا کی بندرگاہ پر بھی قابض ہوگئے ہیں۔

اس سے قبل القاعدہ کے جنگجووں نے جمعرات کو علی الصباح المکلا کی ایک جیل پر دھاوا بول کر 300 سے زائد قیدیوں کو رہا کرالیا تھا۔
................
سعودی عرب کی قیادت میں حوثی مخالف فوجی اتحاد کے ترجمان نے کہا ہے کہ یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کا عارضی دارالحکومت عدن مستحکم ہے اور وہاں حوثی شیعہ باغی اور ان کی اتحادی فورسز کسی بھی سرکاری عمارت پر قبضہ نہیں کرسکی ہیں۔

العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق بریگیڈئیر جنرل احمد عسیری نے بتایا ہے کہ عدن کے دو حصوں میں حوثی باغیوں اور علی عبداللہ صالح کے وفاداروں کی مقامی مسلح گروپوں کے ساتھ لڑائی ہورہی ہے۔آپریشن ''فیصلہ کن طوفان'' کی مرکزی کمان مقامی لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ فضائی مہم کا مقصد یمن کے ڈھانچے کو تباہ کرنا نہیں بلکہ حوثی شیعہ باغیوں تک پہنچنے والی کمک کو روکنا ہے۔سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے جمعرات کو یمن کے چوتھے بڑے شہر حدیدہ کے مختلف علاقوں پر بمباری کی 
ہے۔اس شہر میں زمین سے فضا میں مار کرانے والے میزائل کے لانچرز نصب کیے گئے ہیں۔

سعودی عرب اور یمن کی سرحد پر ہونے والی جھڑپوں میں ایک سعودی سرحدی محافظ سليمان علی يحيى المالكی جاں بحق جبکہ دس دوسرے زخمی ہو گئے.
وزارت داخلہ کے سیکیورٹی ترجمان جنرل منصور الترکی کے مطابق عسیر کے علاقے میں اگلے مورچے الحصن میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے سعودی سرحدی محافظوں پر یمنی سرحد کے جبلیہ علاقے سے گذشتہ شب دس بجے فائرنگ کی گئی، جس کا سعودی سرحدی محافظوں کی جانب سے بھرپور جواب دیا گیا اور صورتحال پر بری فوجی دستوں کی بروقت مدد سے قابو پا لیا گیا.
................
یمن میں جاری کشیدہ صورت حال کے حل کے لئے ایران نے خواہش ظاہر کردی ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر یمن کے بحران کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین عامر کا کہنا ہے ایران یمن کی تمام جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لانا چاہتا ہے۔

انہوں نے سفارش کی کہ یمن کی تمام جماعتیں پُرامن ہو جائیں اور مذاکرات شروع کریں۔

ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب یمن میں جاری بحران کے حل کے لیے تعاون کرسکتے ہیں۔

ایران اور ان کے علا قائی حریف کے ساتھ رابطے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہو ئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لئے کوشش کررہے ہیں تاہم وہ اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتا سکتے۔

حسین عامر کا کہنا تھا کہ ایران کے پاس یمن کے بحران کو حل کرنے کے لئے تجاویز موجود ہیں۔

ایران یمن کے حوثی قبائل کی ہمایت کرتا ہے جو اس وقت دارلحکومت صنعا پر مکمل کنٹرول حاصل کئے ہوئے ہیں اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ صدر منصور ہادی کی فوجوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

ایرانی نائب وزیر خارجہ نے ان پر سعودی عرب کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران یمن کے حوثی قبائل کی مدد کررہا ہے۔

انھوں نے سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے یمن میں گذشتہ 6 روز سے کی جانے والی فضائی کارروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہو ئے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن میں فوجی حملہ ایک بڑی اسٹریٹجک غلطی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بحران کے فوری حل اور یمن کی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے فوجی آپریشن کو فوری بند کرنے کی ضروری ہے۔

 سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کا کہنا ہے کہ آپریشن اس وقت تک جاری رکھا جائے گا جب تک تمام اہداف مکمل نہیں کرلئے جاتے اور یمن میں اتحاد قائم نہیں ہوجاتا۔انہوں سعودی عرب کی شوریٰ کونسل کی مشاورتی باڈی کو بتایا کہ 'ہم جنگ نہیں چاہتے تاہم اگر کوئی جنگ کا ڈھول بجانا چاہتا ہے تو ہم اس کے لئے تیار ہیں'۔گزشتہ روز بھی اتحادیوں اور حوثی قبائل نے ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر بھاری اسلحے کا استعمال کیا۔مقامی رہائشیوں اور قبائلی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے سعودی عرب اور یمن کی سرحد پر بے شمار راکٹ براسائے گئے ہیں جبکہ اس موقع پر دھماکوں اور فائرنگ کی شدید آوازیں بھی سنائی دی گئی ہیں اور سعودی ہیلی کپٹرز نے علاقے میں گشت بھی کیا ہے۔

خیال رہے کہ یمن کی قانونی حکومت کو حوثییوں کے خلاف مدد فراہم کرنے کے لئے سعودی عرب کی سربراہی میں خلیجی ممالک کی افواج نے یمن میں فوجی کارروائی کا اعلان کیا ہے جس کے بعد اتحادیوں کی جانب سے گزشتہ 6 روز سے حوثی قبائل پر یمن کے مختلف علا قوں میں فضائی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

......................
یمن کے وزیرخارجہ ریاض یاسین نے ایک انٹرویو میں اپنے ملک میں حوثییوں کے خلاف عرب ممالک کی زمینی فوج داخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے یہ مطالبہ العربیہ نیوز چینل کے سسٹر چینل الحدث کے ساتھ منگل کو ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا وہ عربوں کی زمینی مداخلت کے خواہاں ہیں۔اس کے جواب میں ریاض یاسین نے کہا کہ ''ہاں،ہم اس کے لیے کہہ رہے ہیں اور ہم اپنے ڈھانچے کو بچانے اور بہت سے شہروں میں محصور یمنیوں کے تحفظ کے لیے بہت جلد ایسا چاہتے ہیں''۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ صدر عبد ربہ منصور ہادی بہت جلد سرکاری طور پر یمن کی خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) میں شمولیت کا کہنے والے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یمن میں جاری جنگ حوثی باغیوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔
ریاض یاسین کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت سعودی دارالحکومت الریاض سے اپنا کام دوبارہ شروع کررہی ہے اور وہ بعض ممالک میں پھنسے ہوئے یمنی شہریوں کو نکالنے کے لیے انتھک کوششیں کررہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں دس اتحادی ممالک گذشتہ چھے روز سے یمن میں حوثی شیعہ باغیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار ملیشیا کے خلاف بمباری کررہے ہیں۔سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے منگل کو اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ یمن کے استحکام اور اتحاد تک آپریشن فیصلہ کن طوفان جاری رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے ہیں لیکن ہم اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں ہیں
...............................
یمن میں پناہ گزینوں کی ایک عارضی بستی کے نزدیک بمباری کے نتیجے میں کم از کم 45 افراد کی ہلاکت اور 65 سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ بمباری کس کی جانب سے کی گئی ہے لیکن گزشتہ جمعرات سے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک  یمن میں سرگرم حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو جنگی طیاروں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔

یمن کے وزیرِ خارجہ ریاض یاسین نے الزام عائد کیا ہے کہ پناہ گزین کیمپ پر بمباری حوثی باغیوں کے توپ خانے  نے کی ہے۔ لیکن دارالحکومت صنعا اور یمن کے شمالی علاقوں پر قابض شیعہ حوثی باغیوں نے حادثے کا ذمہ دار سعودی طیاروں کو ٹہرایا ہے۔

امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ بمباری کا ہدف یمن کے شمالی ضلعے حراد میں واقع ایک فوجی تنصیب تھی جس کی لپیٹ میں نزدیک ہی واقع ایک پناہ گزین کیمپ بھی آگیا۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ تاحال یہ واضح نہیں کہ بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں سے کتنے عام شہری اور کتنے مسلح جنگجو تھے۔

سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے عرب اتحاد میں خلیجی ریاستوں کے علاوہ سوڈان، مصر، اور مراکش بھی شامل ہیں جن کے فوجی طیارے گزشتہ پانچ روز سے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں اور تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

باغیوں نے پیر کو یمن کے جنوبی ساحلی شہر عدن کو توپ خانے کے ذریعے شدید بمباری کا نشانہ بنایا جب کہ اطلاعات ہیں کہ عدن کی بندرگاہ کے نزدیک تعینات عرب ملکوں کے بحری  جہازوں نے باغیوں پر جوابی حملے کیے۔

یمن کے صدر عبدالرب منصوری ہادی کے ایک حامی جنگجو نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ بمباری کرنے والے بحری جہازوں کا تعلق مصر سے تھا جو گزشتہ ہفتے نہرِ سوئز سے ہوتے ہوئے خلیجِ عدن پہنچے تھے۔

یمن میں عرب ملکوں کی فوجی مداخلت کے بعد بحری فوج کی یہ پہلی کارروائی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحران کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں دارالحکومت صنعا پر حوثی باغیوں کے قبضے کے بعد صدر ہادی نے عدن کو اپنا عبوری دارالحکومت قرار دیا تھا جس پر قبضے کے لیے باغیوں نے رواں ماہ کے وسط میں پیش قدمی شروع کی تھی۔

عرب ملکوں کے فضائی حملوں کے باوجود حوثییوں نے عدن کا محاصرہ کر رکھا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں اور گرد و نواح میں باغیوں اور صدر ہادی کے حامی قبائلیوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہورہی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ پانچ روز کے دوران عدن اور اس کے گرد و نواح میں ہونے والی بمباری اور جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔امریکہ میں تعینات سعودی سفیر نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ یمن میں جاری لڑائی سعودی عرب اور ایران کی باہمی مخاصمت کا نتیجہ ہے۔واشنگٹن کے لیے سعودی سفیر عادل الجبیر نے کہا ہے کہ عرب ملکوں کی فضائی کارروائیاں یمن کے عوام کو شدت پسندوں سے بچانے اور وہاں امن اور استحکام لانے کے لیے "مجبوری میں چھیڑی جانے والی ایک جنگ" ہے۔انہوں نے کہا کہ یمن اور اس کے اتحادی ملکوں نے اس جنگ سے بچنے اور بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی تھیں لیکن ان پر یہ جنگ مسلط کردی گئی۔
 

No comments:

Post a Comment