یمن تازہ ترین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کے ایک مقرب ذریعے نے اطلاع دی ہے کہ ہفتے کے روز جنوبی یمن کےعدن شہر میں اتحادی فوج کے طیاروں نے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر 15 حملے کیے جس کے نتیجے میں دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا ہے۔
ادھر حوثی ملیشیا کی جانب سے بھی عدن میں عام شہری آباد پر راکٹ حملے کیے گئے جن میں چار شہریوں کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
عالمی خبررساں ادارے "اے ایف پی" نے عدن کے ڈپٹی گورنر نائف البکری کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ خوراک کی جانب سے غذائی سامان سے لدا ایک بحری جہاز یمن بھیجا ہے جسے حوثی باغیوں نے روک لیا ہے اور بحری جہاز کو متاثرین تک امداد پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
دوسری جانب حوثیوں کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ امدادی جہاز کا راستہ دانستہ طور پر مغربی بندرگاہ الحدیدہ کی جانب موڑا گیا ہے تاکہ حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کے باشندوں کو خوراک کی سپلائی روکی جاسکے۔
............
............
جنیوا میں یمن کے متحارب فریقوں کے درمیان اقوام متحدہ کی ثالثی اور نگرانی میں امن مذاکرات کسی سمجھوتے کے بغیر ختم ہوگئے ہیں۔
یمنی وزیرخارجہ ریاض یاسین نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق ریاض یاسین نے کہا ہے کہ سوئس شہر میں مذاکرات کے دوسرے دور سے متعلق بھی کوئی سمجھوتا نہیں ہوا ہے۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد نے جنیوا میں حوثیوں کے نمائندوں ،سابق صدر علی عبداللہ صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس اور سعودی عرب میں جلا وطن صدر عبد ربہ منصور ہادی کے اتحادیوں کے ساتھ باری باری بات چیت کی ہے تاکہ انھیں ملک میں جاری خونریزی کو رکوانے کے لیے کسی سمجھوتے پر آمادہ کیا جاسکے۔
ان متحارب فریقوں نے جمعہ کو بھی مذاکرات کے لیے ایک ہی میز پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا اور انھوں نے کسی قسم کی مفاہمت کا بھی کوئی اشارہ نہیں دیا تھا۔
سابق صدر علی صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس کے وفد کے رکن یحییٰ ضوائد نے کہا کہ ''ہم آج کی ملاقاتوں کے بارے میں پُرامید تھے اور ہم نے اقوام متحدہ کی تجاویز کو سنا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ جو کچھ تجویز کررہے ہیں،وہ اس معیار کا نہیں ہے جس کی ہم توقع کررہے تھے''۔
اقوام متحدہ کے ترجمان احمد فوزی نے قبل ازیں جنیوا میں مذاکرات میں توسیع کی اطلاعات کی بھی تردید کی تھی۔انھوں نے کہا کہ جلاوطن حکومت کا وفد ہفتے کو جنیوا سے روانہ ہونے والا ہے اور حوثی وفد اتوار کو روانہ ہوجائے گا۔اس سے پہلے کے وقت تک ہی بات چیت میں توسیع کی جاسکتی تھی۔
یمن کے متحارب فریقوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ان مذاکرات کے دوران جنگ بندی کی ضرورت سے اتفاق کیا تھا لیکن ان کے درمیان اس کی تفصیل پر اختلافات طے نہیں ہوسکے تھے۔
حوثیوں نے مذاکرات سے قبل انسانی بنیاد پر جنگ بندی کے اعلان کے مطالبہ کیا تھا اور یمنی حکومت نے مشروط طور پر اس سے اتفاق کیا تھا۔اس نے یہ شرط عاید کی تھی کہ حوثی اور ان کے حامی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اپریل میں منظور کردہ قرارداد نمبر 2216 کی پاسداری کریں۔اس میں حوثیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ تمام علاقوں کو خالی کردیں۔
سعودی اتحادیوں کے فضائی حملے
درایں اثناء سعودی عرب کی قیادت میں لڑاکا طیاروں نے یمنی دارالحکومت صنعا میں حوثی باغیوں کی اتحادی ری پبلکن گارڈ فورسز کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔صنعا کے نواحی جنوبی علاقے کے مکینوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے ری پبلکن گارڈز کے السواد کیمپ پر تین فضائی حملوں کی آوازیں سنی ہیں۔
اتحادی طیاروں نے صنعا سے جنوب مشرق میں واقع علاقے خولان پر تین فضائی حملے کیے ہیں اور صوبہ الجوف کے علاقے الہزم میں حوثیوں کی اتحادی ایک سو پندرھویں انفینٹری بریگیڈ کے کیمپ پر چھے حملے کیے ہیں۔جنوبی شہر عدن میں بھی حوثی کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے۔
ان علاقوں کے مکینوں نے فضائی حملوں میں ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں دی ہے لیکن حوثیوں کا کہنا ہے کہ شمالی صوبے صعدہ کے علاقے رازح میں فضائی حملوں میں نو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
..............
.............
العربیہ' نیوز چینل نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ نے جنیوا میں یمن کی جلاوطن حکومت اور یمنی ملیشیا کے نمائندوں کے درمیان معطل شدہ مذاکرات جمعہ تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مذاکرات میں شامل فریق ایک دوسرے پر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ مذاکرات کی مدت میں توسیع کا فیصلہ ابتدائی طور پر مخصوص 48 گھنٹوں کا وقت ختم ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد سامنے آیا۔
ذرائع کے مطابق یمنی ملیشیا کے وفد نے سویئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات میں فضائی حملے محدود کرنے والی جنگ بندی کی بات تو کی تاہم انہوں نے زمین پر جاری مخاصمت روکنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس تجویز کو یمن کی آئینی حکومت نے مسترد کرتے ہوئے مکمل فائر بندی پر زور دیا۔ یمن کی متحارب جماعتوں کا فائر بندی پر تو اتفاق ہے لیکن اس کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔
جنیوا سے العربیہ کے نامہ نگار نے اپنے مراسلے میں بتایا کہ حوثیوں نے مذاکرات سے پہلے انسانی بنیادوں پر فائر بندی کی درخواست کی تھی۔ یمنی حکومت نے اس شرط پر یہ مطالبہ ماننے کا عندیہ دیا تھا کہ حوثی اور ان کے حامی اپریل میں اقوام متحدہ میں منظور کی جانے والی قرارداد 2216 کا پاس کریں گے۔ سیکیورٹی کونسل کی اس قرارداد کے بموجب حوثی شہروں سے انخلا اور لوٹا گیا سرکاری اسلحہ کو واپس کرنے کے پابند ہیں۔
گذشتہ پیر کو یو این سیکرٹری جنرل بین کی مون نے جنیوا مذاکرات کا افتتاح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک کے آغاز پر یمن میں انسانی بنیادوں پر جنگ بند کی جائے کیونکہ یہ خطہ پہلے ہی غربت اور بے روزگاری کے باعث تباہی کا شکار ہے۔
...................
...................
یمن کے متحارب فریقوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں جاری امن مذاکرات کے دوران جنگ بندی کی ضرورت سے اتفاق کیا ہے لیکن ان کے درمیان اس کی تفصیل پر ابھی تبادلہ خیال جاری ہے۔
جنیوا سے العربیہ نیوز کے نمائندے نے اطلاع دی ہے کہ حوثیوں نے مذاکرات سے قبل انسانی بنیاد پر جنگ بندی کے اعلان کے مطالبہ کیا ہے اور یمنی حکومت نے مشروط طور پر اس سے اتفاق کیا ہے اور اس نے یہ شرط عاید کی ہے کہ حوثی اور ان کے حامی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپریل میں منظور کردہ قرارداد نمبر 2216 کی پاسداری کریں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد جنیوا میں یمن کے مختلف دھڑوں کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کررہے ہیں تاکہ ان میں موجود اختلافات کی خلیج پاٹی جاسکے۔یمن کے متحارب فریق ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے سے گریزاں ہیں اور وہ مختلف ایجنڈے پیش کررہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے سوموار کو جنیوا میں یمنی فریقوں کے درمیان امن بات چیت کا افتتاح کرتے ہوئے رمضان المبارک کے آغاز سے قبل فوری طور پر دوہفتے کے لیے جنگ بندی پر زوردیا تھا تاکہ جنگ سے متاثرہ یمنیوں کو انسانی امداد بہم پہنچائی جاسکے۔انھوں نے کہا کہ ''دو روز کے بعد رمضان المبارک کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ ہم آہنگی ،امن اور مصالحت کا عرصہ ہونا چاہیے''۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی نگرانی اور ثالثی میں اتوار کو یمن امن مذاکرات کا آغاز ہونا تھا لیکن عالمی ادارے نے اس میں ایک دن کی تاخیر کردی تھی اور حوثیوں کا وفد سوموار کو پہنچنے کے بعد ان سے مشاورتی عمل کا آغاز کیا گیا تھا۔
قبل ازیں یمن کے سعودی عرب میں جلاوطن صدر عبد ربہ منصور ہادی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات میں سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد پر ہی تبادلہ خیال کرے گی۔اس قرارداد میں حوثی باغیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں کو خالی کردیں۔
سعودی عرب کے شہر جدہ میں منگل کو اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) کے منعقدہ غیرمعمولی اجلاس کے موقع پر انھوں نے کہا کہ ''جنیوا میں ہمارا وفد قرارداد 2216 کے اطلاق سے متعلق شرائط ہی پر تبادلہ خیال کرے گا''۔
اس قرارداد میں حوثیوں سے زیر قبضہ علاقوں کو خالی کرنے کے علاوہ سلامتی کونسل نے صدر منصور ہادی کی حکومت کو قانونی اور یمنی عوام کی نمائندہ تسلیم کیا تھا اور اس نے حوثیوں سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ یمنی فوج سے چھینے گئے ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائیں۔ کونسل نے حوثیوں پر اسلحے کے حصول کے علاوہ مختلف پابندیاں عاید کردی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنیوا مذاکرات میں شرکت کے لیے آئے حوثی وفد اور علی صالح کے حامیوں کو انسانی حقوق کی پامالی کی پاداش میں "عالمی اشتہاری" قرار دیا جائے
یمن میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اقوام متحدہ اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنیوا مذاکرات میں شرکت کے لیے آئے حوثی وفد اور علی صالح کے حامیوں کو انسانی حقوق کی پامالی کی پاداش میں "عالمی اشتہاری" قرار دے کر انہیں گرفتار کریں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق انسانی حقوق کی غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یمن میں سابق صدر علی صالح اور شیعہ مسلک کے حوثی باغی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔
یمن کے انسانی حقوق کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق گروپوں نے علی صالح اور حوثی گروپ کے سربراہ عبدالملک الحوثی اور ان کے معاونین کو عالمی اشتہاریوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے یمن کے علاقوں عدن، تعز، ضالع اور لحج میں حوثیوں اور علی صالح کی حامی ملیشیا کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں اور نہتے شہریوں کے قتل عام کے ثبوت بھی اقوام متحدہ کو ارسال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
...........
.........
یمن کی آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے معزول صدر علی عبداللہ صالح اورحوثیوں کے درمیان ملکی بحران حل کے لئے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے پر اختلاف ہو گیا۔
'العربیہ' ذرائع کے مطابق اسی اختلاف کے نتیجے میں باغی عبداللہ صالح اور حوثیوں کے وفد جنیوا نہیں گئے۔ انہی ذرائع کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا طیارہ صنعاء سے صالح اور حوثیوں کے وفد کے بغیر روانہ ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق یمنی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے وفود جنیوا پہنچ گئے۔ سولہ ملکوں کے سفیر بھی یمن بحران سے متعلق مذاکرات میں شرکت کے لئے جنیوا پہنچے ہیں۔
یمن میں 'فیصلہ کن طوفان' آپریشن کے ترجمان نے ہفتے کو بتایا تھا کہ جنیوا کانفرنس میں شرکت کے لئے صنعاء سے وفود کو لیکر جانے کے لئے اقوام متحدہ کا ای
No comments:
Post a Comment