راہل گاندھی جب سے گمنام چھٹی سے واپس لوٹے ہیں، تب سے وہ بالکل الگ انداز میں دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کا نہ صرف انداز نیا ہے، بلکہ ان کی سوچ نئی ہے، حکمت عملی نئی ہے، سیاست نئی ہے، صلاح کار نئے ہیں اور نظریہ بھی نیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں وہ جتنا پارلیمنٹ میں بولے، اس سے کہیں زیادہ انہوں نے اس بار کے بجٹ اجلاس میں اپنی بات رکھی۔ پارلیمنٹ میں جہاں وہ ایک طرف بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف وہ کسانوں کے مدعے کو لے کر سڑکوں پر بھی نظر آ رہے ہیں۔ کسانوں کی خودکشی کے خلاف چلچلاتی گرمی میں پیدل مارچ بھی کر رہے ہیں۔ گاؤوں میں جا کر لوگوں کے بیچ چارپائی پر بیٹھ کر چائے پینا، گاؤں والوں سے بات چیت کرنا یا پھر پارلیمنٹ کے اندر تحویل اراضی کا معاملہ ہو یا نیٹ نیوٹریلٹی کا، راہل گاندھی ایک نئے اوتار میں نظر آ رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ان کی کارکردگی زبردست رہی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ راہل گاندھی جب سے چھٹی سے واپس لوٹے ہیں، وہ ایک تیز طرار لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ راہل کی اس کی کارکردگی سے جہاں ایک طرف بھارتیہ جنتا پارٹی بیک فٹ پر چلی گئی، وہیں کانگریس پارٹی کے اندر بھی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ کانگریس کا ہر بڑا اور چھوٹا لیڈر پارٹی میں اپنے مستقبل کو لے کر فکرمند نظر آ رہا ہے۔
’چوتھی دنیا‘ نے چھ ہفتے پہلے ہی یہ خبر دی تھی کہ ستمبر کے مہینہ میں راہل گاندھی کو کانگریس پارٹی کا صدر بنایا جائے گا۔ راہل گاندھی کی تمام سرگرمیاں اسی بڑے منصوبہ کا حصہ ہیں۔ راہل گاندھی نہ صرف کانگریس کے صدر بنیں گے، بلکہ وہ اپنی پسند کی کانگریس کی ٹیم بھی بنائیں گے۔ اپنی نئی ٹیم کے ذریعے ہی پارٹی کو پھر سے مضبوط کرنے کی حکمت عملی کو زمینی سطح پر نافذ کریں گے۔ راہل کی ٹیم میں کون ہوگا اور کس کی چھٹی ہوگی، اسے لے کر نئے اور پرانے کانگریسی لیڈر آج کل بے چین ہیں۔ بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ راہل گاندھی کا پورا انداز بدل چکا ہے۔ راہل گاندھی اب کانگریس کو ایسی پارٹی کے طو رپر تیار کرنا چاہتے ہیں، جہاں عہدیداروں کو ذمہ داری لینی ہوگی۔ وہ اب کچھ خاص صلاح کاروں سے صلاح لینے کی بجائے بڑے پیمانے پر لوگوں سے صلاح و مشورہ کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک جو لوگ راہل گاندھی کے قریبی صلاح کار تھے، آج ان کا اثر اور اہمیت ختم ہو گئی ہے۔ راہل گاندھی کو اب یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ ان کے کئی سارے فیصلے، جو انہوں نے اپنے قریبی صلاح کاروں کے مشورے پر لیے تھے، ان سے خود ان کا اور ان کی پارٹی کا نقصا ن ہوا ہے۔ ایسے لوگوں میں جے رام رمیش، مدھو سودن مستری، موہن پرکاش اور سی پی جوشی جیسے لوگ شامل ہیں۔ راہل گاندھی کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ وہ اب اپوزیشن کے رول میں ہیں اور سرکا رپر حملہ کرنا ہی سب سے کارگر حکمت عملی ہے۔ اس لیے وہ ہر مدعے پر حملہ آور نظر آ رہے ہیں۔ ان کی حکمت عملی صاف ہے۔ وہ مودی سرکار کو غریب، کسان اور مزدور مخالف سرکار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تحویل اراضی بل کے خلاف پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک آندولن کرنے میں مصروف ہیں۔ تحویل اراضی بل کے مدعے پر وہ اتر پردیش، بہار اور بنگال کے غریب کسانوں کو لبھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ راہل گاندھی کو لگتا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں ہار کی وجہ منموہن سرکار کی غریب مخالف شبیہ رہی ہے۔ ساتھ ہی وہ اس بات سے بھی ناراض ہیں کہ یو پی اے سرکار کے وزیروں نے مفادِ عامہ کی بہت ساری اسکیموں کے نفاذ میں کوتاہی برتی۔ انہیں لگتا ہے کہ کسانوں اور غریبوں کو سیدھے سیدھے کیش دینے والی اسکیموں کو اگر صحیح ڈھنگ سے نافذ کیا گیا ہوتااور کسانوں اور دیہی مزدوروں کو راحت دینے والی ساری اسکیموں پر دھیان دیا گیا ہوتا، تو آج کانگریس پارٹی کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ راہل گاندھی کو ایک اور بات کی شکایت ہے کہ بدعنوانی کو لے کر کانگریس پارٹی کی جو شبیہ بنی، اس سے روایتی حامیوں کا اعتماد اور حمایت پارٹی نے کھو دیا۔ ابھی لوک سبھا الیکشن میں چار سال کا وقت بچا ہے۔ اس درمیان بہار، بنگال اور اتر پردیش جیسی اہم اور بڑی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ راہل گاندھی نے پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کو واضح ہدایت دی ہے کہ پارٹی کی از سر نو تعمیر کا کام زمینی سطح سے شروع ہونا چاہیے، اس میں نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ موقع ملنا چاہیے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے تمام عہدیداروں اور لیڈروں کو اپنے اپنے علاقوں میں جا کر کام کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔
راہل گاندھی کانگریس پارٹی کی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔ پارٹی کو پھر سے کھڑا کرنے کی حکمت عملی بھی انہوں نے بنا لی ہے۔ انہیں چنوتیوں کا اندازہ بھی ہو چکا ہے۔ کانگریس پارٹی کے اندر کیا کمیاں ہیں، اسے بھی سمجھنے کی انہوں نے کوشش کی ہے اور اس کا تجزیہ کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کی اس وقت حالت یہ ہے کہ کوئی بھی آگے بڑھ کر کچھ بولنا نہیں چاہتا۔ پارٹی میں راہل گاندھی کی نظروں میں خود کو قابل دکھانے کی ہوڑ لگی ہے۔ کانگریس کے ایک نوجوان لیڈر نے بتایا کہ راہل گاندھی نے انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد کانگریس کے تقریباً 500 زمینی لیڈروں اور عہدیداروں سے بات چیت کی اور ان سب سے ہار کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے کہا۔ راہل گاندھی یہ کام دو مہینے تک کرتے رہے، اس کے بعد انہوں نے ایک نئی حکمت عملی بنائی، جس کے چار حصے ہیں۔ پہلا، پارٹی کو گراس روٹ لیول پر مضبوط کرنا۔ دوسرا، مقامی مدعوں کو اٹھا کر کانگریس کے روایتی ووٹروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا۔ تیسرا، جن ریاستوں میں کانگریس کی سرکار نہیں ہے، وہاں سرکار کی مخالفت کرتے ہوئے عوام کے درمیان اپنے وجود کو بنائے رکھنا اور چوتھا، پچھلی غلطیوں کو درست کرنا، مثلاً مسلم نواز نظر نہ آنا۔
راہل گاندھی نے یہ حکمت عملی فروری ماہ میں ہی تیار کر لی تھی، لیکن اسے کب لانچ کرنا ہے، یہ طے نہیں ہو پایا تھا۔ دیر اس لیے ہوئی، کیوں کہ پارٹی کے اندر راہل گاندھی کے خلاف ہی کئی لیڈر بیان بازی کرنے لگے تھے۔ کانگریس پارٹی کے پرانے اور تجربہ کار لیڈر بھی راہل کی مخالفت پر آمادہ تھے۔ کانگریس کے اندر یہ خوف بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں کوئی لیڈر بغاوت نہ کر بیٹھے، اس لیے کسی بھی تبدیلی کے فیصلہ کو روکا گیا۔ سونیا گاندھی نے پرانے لیڈروں سے بات چیت کرکے ماحول کو قابو میں کیا۔ خبر یہ بھی آئی کہ راہل گاندھی اس دیری کی وجہ سے ناراض ہیں، اسی لیے وہ بجٹ اجلاس کے دوران چھٹی پر چلے
No comments:
Post a Comment