Tuesday, June 30, 2015

’افغان جنگجو دولت اسلامیہ کی قیادت سے رابطے میں ہیں‘

      افغانستان میں کام کرنے والے ایک سینیئر امریکی فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ سے منسلک جنگجو شام میں اس شدت پسند تنظیم کی قیادت سے رابطے میں ہیں۔
    افغان سپیشل فورس کو تربیت دینے والی ایک اکائی کے سربراہ جنرل شان سوئنڈل نے کہا کہ غیر مطمئن طالبان جنگجوؤں نے ایک ’فرینچائز‘ قائم کر لی ہے۔
    تاہم انھوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ افغانستان میں اس قدر سنجیدہ نہیں ہے جس قدر وہ لیبیا یا عراق میں ہے۔
    حالیہ ہفتوں کے دوران مشرقی افغانستان میں نئے گروپ اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔
    طرفین نے اتحاد کی اپیل کو مسترد کر دیا اور جنگ ننگرہار صوبے کے کئی اضلاع میں پھیل گئی جو کہ تورا بورا کے غاروں والے علاقے سے زیادہ دور نہیں جہاں کبھی القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن چھپے تھے۔
    دولت اسلامیہ کے اہم گروپ سے منسلک ویب سائٹ کے بعض حصے اب مکمل طور پر ’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کے

      سی ویب سائٹ پر ایک حالیہ بیان میں طالبان جنگجوؤں کو دولت اسلامیہ میں شامل نہ ہونے کی صورت میں موت کی دھمکی دی گئی ہے۔
    اس پوسٹ میں کہا گیا ہے: ’آپ دولت اسلامیہ سے جنگ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنی قبر خود کھودنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سر تن سے جدا کیا جائے اور آپ کے گھر تباہ کر دیے جائیں۔ کیا آپ کو یہ گمان ہے کہ آپ عراقی ملیشیا سے زیادہ طاقت ور ہیں جن کی پشت پر امریکہ کھڑا ہوا تھا؟‘
    بظاہر یہ پوسٹ طالبان کی براہ راست اتحاد کی اپیل کا منھ توڑ جواب ہے۔
    طالبان نے دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی کے نام ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کی جنگ میں ’دو پر چم‘ نہیں لہرا سکتے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے ’مجاہدین کی قوت منقسم ہو کر رہ جائے گی۔‘
    طالبان نے دولت اسلامیہ کے رہنما کے نام پیغام بھیجا تھا
    لیکن اس کے برعکس ننگرہار کے معرکے میں دولت اسلامیہ کے حامیوں کو طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کو قتل کرنے کے لیے لوگوں پر زور دیتے ہوئے دیکھا گيا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ایک خلیفہ بغدادی ہے ہی تو دوسرے کی ضرورت کیا!
    ’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کی پہلی علامت پاکستان کے سرحدی علاقے میں جنوری میں نمودار ہوئی تھی۔
    کئی سابق طالبان جنگجو جن میں ایک افغان کمانڈر بھی شامل تھے انھوں نے نئے گروپ سے اعانت کا عہد کیا تھا۔
    اب دولت اسلامیہ کی دھمکیوں کے شواہد کے طور پر طالبان جنگجوؤں کی سر قلم شدہ اور گولی ماری ہوئی تصاویر افغانستان اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر نظر آ رہی ہیں۔
    ’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کی پہلی علامت پاکستان کے سرحدی علاقے میں جنوری میں نمودار ہوئی تھی
    یہ نئی معرکہ آرائیاں افغان فورسز کے لیے پیچیدہ سکیورٹی چیلنجز ہوں گی کیونکہ انھیں پہلی بار زمین پر بغیر بین الاقوامی فوجیوں کے تعاون کے گرمیوں کی جنگ سے سابقہ ہوگا۔
    جنرل سوئنڈل نے کہا کہ افغان کی سپیشل فورس ہر ہفتے تقریبا 130 چھاپے مار رہی ہے جن میں سے معدودے چند میں ہی بین الاقوامی فوجیوں کا تعاون حاصل تھا اور وہ بھی منصوبہ بندی اور کنٹرول روم تک محدود تھا۔
    جنرل سوئنڈل نے کہا کہ مغربی صوبہ فراہ بھی اس نئی تحریک کے خطرے سے دوچار ہے۔ وہ لوگ طالبان کے ساتھ وسائل کے لیے مقابلے میں ہیں۔
    اس نئی تحریک نے افغانستان کے شہریوں کو نئی پریشانیوں میں ڈال دیا ہے اور ننگرہار کی جنگ سے بچنے کے لیے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
    خیال رہے کہ رواں سال ملک میں اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
       جون 2015

      No comments:

      Post a Comment