Tuesday, June 30, 2015

فغانستان: ریپ کے مجرم کو ڈی این اے کی مدد سے سزا

افغان عدالت میں ڈی این اے ثبوت فراہم کرنے کے عمل نے اس مقدمے کو انتہائی غیرمعمولی بنا دیا ہے
افغانستان میں ایک عدالت نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ڈی این اے کے شواہد کی بنیاد پر ایک شخص کو اپنی ہی بیٹی کے ساتھ ایک سے زائد مرتبہ ریپ کرنے کا مجرم ٹھہرایا ہے۔
ریپ کا شکار بننے والی خاتون کے دو بچے ہیں، اور انھیں دس سال تک زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان کے تحفظ کی وجہ سے ان کا نام ظاہر نہیں جا سکتا۔
افغانستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور اکثر اوقات الٹا جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کو ’اخلاقی جرائم‘ کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
میں جنسی تشدد کا شکار ایک خاتون سے ملا، اس کی عمر 20 سال سے کچھ زیادہ تھی اور گذشتہ سال پہلی مرتبہ اس کے والد کے خلاف مقدمے کو عدالت نے ڈی این ای ثبوت پیش کرنے کا کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔
وہ جنسی زیادتی کی بنا پر حاملہ تھیں اور ایک چار سالہ بچہ ان کی گود میں تھا۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ میری بیٹی ہے اور میرے باپ کی بیٹی ہے۔ یہ میرے والد کا مجھے ریپ کرنے کا نتیجہ ہے۔ ہم بیک وقت ماں بیٹی اور بہنیں ہیں۔‘
انھیں دس سال تک زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا
وہ جس گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں وہیں انھوں نے مجھے گذشتہ سال عدالت میں پیش کی گئی اپنی کہانی بیان کی۔
ان کے مطابق زیادتی اس وقت شروع ہوئی جب ان کے والد آٹھ سال بعد ایران سے واپس آئے، اس وقت ان کی عمر 12 سال تھی۔
وہ بتاتی ہیں: ’مجھے توقع تھی کہ میرے والد بھی مجھے اسی طرح پیار کریں گے جس طرح میرے ماموں یا چچا اپنے بچوں کو پیار کرتے ہیں کیونکہ میں ان تمام برسوں میں اپنے والد کے پیار کی پیاسی تھی، میں اس سے محروم رہی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں: ’لیکن جب میں نے خود کو اپنے والد کی بانھوں میں پایا تو یہ کچھ زیادہ ہی تھا۔‘
وہ یاد کرتی ہیں کہ جب وہ انھیں چھوتے تھے تو انھیں اچھا محسوس نہیں ہوتا تھا۔
’میں اپنی دادی کے پاس گئی اور ان سے شکایت کی لیکن انھوں نے مجھ پر الزام لگایا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ہر باپ اپنے بچوں سے لاڈ پیار کرتا ہے۔‘
ایک رات ان کے والد نے انھیں ریپ کر دیا: ’میں بہت بری طرح ڈری ہوئی تھی، میں صدمے میں تھی اور کمرے کے ایک کونے میں لیٹ گئی اور نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں۔‘
افغانستان میں عموماً خواتین جنسی جرائم کے خلاف عدالتوں سے رجوع نہیں کرتیں
جب وہ حاملہ ہوئیں تو ان کے والد نے خاندان کو دوسرے صوبے میں منتقل کر دیا۔ بچہ پیدا ہوا لیکن والد نے لے لیا اور پھر کبھی انھوں نے نہیں دیکھا۔
یہ زیادتی دس سال سے زائد عرصہ جاری رہی، جس دوران وہ کئی مرتبہ حاملہ ہوئیں اور بچہ گرایا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کئی قسم کی ادویات استعمال کرواتے تھے جو انھیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ امتناعِ حمل کی کوششیں تھیں۔
پھر ایک اور بچہ پیدا ہوا۔ ’میں جب دوبارہ حاملہ ہوئی تو میں نے بچہ نہیں گرایا۔‘ وہ کہتی ہیں: ’میں اپنے والد کے خلاف اسے ثبوت کے طور پر رکھنا چاہتی تھی۔ میرا بچہ ہی میرا واحد ثبوت تھا۔‘
اپنی ماں کی مدد سے وہ زیادتی کے سلسلے کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ انھوں نے بتایا آخری حملہ گذشتہ سال جولائی میں عید سے ایک دن پہلے ہوا تھا۔
’میں نے اور میری ماں نے پوری کہانی مولوی، آس پاس کے بزرگوں اور ڈسٹرکٹ پولیس کو بتائی اور انھوں نے کہا کہ اگر دوبارہ حملہ ہوتا ہے تو انھیں بتائیں۔‘
اس رات ان کے والد نے ان کی والدہ کو اپنی بیٹی پر حملہ کرنے سے قبل گھر سے باہر بھیجا۔ ان کے والد کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ ان کی والدہ پولیس اور بزرگوں کے ہمراہ بطور عینی شاہد آگئی تھیں۔
زیادتی کا شکار خاتون نے غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے افغان ٹیلی وژن پر اپنی کہانی سنائی، خواتین کے حقوق سے منسلک کارکنوں نے ان کی مدد کی
آخر کار اس شخص پر مقدمہ چل پڑا لیکن بیٹی کو کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے والد نے تمام الزامات سے انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی کے دوسرے مردوں سے غیرازدواجی تعلقات ہیں۔ زیادتی کا شکار خاتون اب عدالت کے سامنے جواب دہ تھی۔
انھوں نے مجھے بتایا: ’جج نے مجھ سے سوال کیا کہ میں نے اپنے پیٹ میں موجود بچے کو مار کیوں نہیں دیا؟ میں نے جواب دیا کہ اگر میں بچے کو مار دیتی تو مجھ پر بچہ گرانے کا الزام عائد کر دیا جاتا۔ میں نے یہ بچہ اپنے والد کے خلاف الزام ثابت کرنے کے لیے رکھا ہے۔‘
عدالت نے مقدمہ والد اور بیٹی کے ڈی این اے کے نمونے پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے خارج کر دیا۔
اس کے بعد انصاف کے حصول کی مہم کا آغاز ہوتا ہے۔
زیادتی کا شکار خاتون نے غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے افغان ٹیلی وژن پر اپنی کہانی سنائی، خواتین کے حقوق سے منسلک کارکنوں نے ان کی مدد کی۔
افغانستان میں بظاہر جنیٹک فورینسک ٹیسٹ کرنے کی سہولت دستیاب نہیں، جس سے بیرون ملک سے مدد حاصل کرنا ناگزیر ہوگیا تھا۔
اس خاتون کے حامیوں نے سفارت خانوں اور غیرسرکاری اداروں سے مدد طلب کی، اور تقریباً ایک سال بعد وہ ڈی این اے ٹیسٹ کروانے میں کامیاب ہو گئے، اور اس دوران وہ اپنے دوسرے بچے کو جنم دے چکی تھیں۔
بالآخر اٹارنی جنرل اور وزارت داخلہ کے اہلکاروں پر مشتمل کمیٹی کے ذمے یہ کام سونپا گیا۔
میں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوں۔ جب وہ بڑے ہو جائیں گے اور مجھ سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھیں گے تو میں انھیں کیا بتاؤں گی؟
خاتون کے وکیل روح اللہ بتاتے ہیں: ’انھوں نے والد، خاتون اور ان کے بچوں کے تھوک اور خون کے نمونے لیے اور بگرام ایئربیس کے راستے امریکہ بھجوائے۔ اگر ہمیں یہ نتائج نہ ملتے تو میری موکلہ کو ملکی قوانین کے مطابق سزا ملتی۔‘
ان نمونوں کی جانچ امریکی فرم ’آئیڈیل انوویشنز‘ میں کی گئی جو فورینسک ٹیسٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں، اور افغانستان میں میں بھی فنگر پرنٹس اور بائیو میٹرک ٹیکنالوجی فراہم کر چکے ہیں۔ انھوں نے یہ ٹیسٹ بلا معاوضہ کیا۔
جب نتائج واپس آئے تو ان سے ظاہر ہوا کہ بیٹی کے بچوں کا باپ واقعی زیادتی کا شکار خاتون کا والد ہی ہے۔ جج نے اس شخص کو موت کی سزا سنا دی۔
یہ مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ والد نے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کی ہے، وہ خود کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔
افغان عدالتوں میں ڈی این اے ثبوت فراہم کرنا ایک انہونی سی بات ہے، جس سے اس مقدمے کو انتہائی غیرمعمولی بنا دیا ہے۔
زیادتی کا شکار خاتون نے مجھے بتایا کہ اگر ان کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے کو پھانسی بھی ہو جاتی ہے تب بھی وہ خوفزدہ رہیں گی۔
وہ کہتی ہیں: ’میں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوں۔ جب وہ بڑے ہوجائیں گے اور مجھ سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھیں گے تو میں انھیں کیا بتاؤں گی؟‘

No comments:

Post a Comment