پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دے دی۔
متحدہ قومی موومنٹ کی لندن اور پاکستان کی رابطہ کمیٹی سندھ حکومت میں شمولیت سے متعلق فیصلہ کرے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے 2 دن پہلے اسلام آباد میں دیئے جانے والے افطار ڈنر میں ایم کیو ایم کے وفد کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔
آصف زرداری اور الطاف حسین کے ٹیلی فونک رابطے نے بھی دونوں جماعتوں کےدرمیان قریب آنے میں بھی اہم کردارادا کیا۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ میں ایم کیو ایم کو اہم وزارتیں دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 6 اکتوبر 2014 کو نماز عید کی ادائیگی کے بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ الطاف انکل! اپنے نامعلوم افراد کو سنبھالیں، اگر میرے کارکنوں پر آنچ بھی آئی تو لندن پولیس کیا، میں آپ کا جینا حرام کردوں گا۔
بعد ازاں 18 اکتوبر کو کراچی میں جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کراچی میں 20 سال حکمرانی کر رہی ہے اور جو کچھ کراچی کے ساتھ ہوا اس کو سب نے دیکھا، کراچی میں دھاندلی ہوتی ہے، 2018 میں انتخابات میں شفاف انتخابات میں کراچی کو آزادی ملے گی۔
بلاول بھٹو کے اس خطاب کے اگلے روز 19 اکتوبر 2014 کو متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔
ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کے ہمراہ نائن زیرو پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ ہم اپنے حصے کا سفر کر چکے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے بعد ساتھ چلنے کا جواز نہیں بچتا، اب ہم سندھ حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا مطلب جمہوریت کے خلاف قدم اٹھانا ہے، پی پی پی کے ہاتھ مضبوط کرنے کا مطلب پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی لندن اور پاکستان کی رابطہ کمیٹی سندھ حکومت میں شمولیت سے متعلق فیصلہ کرے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے 2 دن پہلے اسلام آباد میں دیئے جانے والے افطار ڈنر میں ایم کیو ایم کے وفد کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔
آصف زرداری اور الطاف حسین کے ٹیلی فونک رابطے نے بھی دونوں جماعتوں کےدرمیان قریب آنے میں بھی اہم کردارادا کیا۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ میں ایم کیو ایم کو اہم وزارتیں دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 6 اکتوبر 2014 کو نماز عید کی ادائیگی کے بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ الطاف انکل! اپنے نامعلوم افراد کو سنبھالیں، اگر میرے کارکنوں پر آنچ بھی آئی تو لندن پولیس کیا، میں آپ کا جینا حرام کردوں گا۔
بعد ازاں 18 اکتوبر کو کراچی میں جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کراچی میں 20 سال حکمرانی کر رہی ہے اور جو کچھ کراچی کے ساتھ ہوا اس کو سب نے دیکھا، کراچی میں دھاندلی ہوتی ہے، 2018 میں انتخابات میں شفاف انتخابات میں کراچی کو آزادی ملے گی۔
بلاول بھٹو کے اس خطاب کے اگلے روز 19 اکتوبر 2014 کو متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔
ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کے ہمراہ نائن زیرو پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ ہم اپنے حصے کا سفر کر چکے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے بعد ساتھ چلنے کا جواز نہیں بچتا، اب ہم سندھ حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا مطلب جمہوریت کے خلاف قدم اٹھانا ہے، پی پی پی کے ہاتھ مضبوط کرنے کا مطلب پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
No comments:
Post a Comment